امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان 29 فروری کو ہونے والے امن معاہدے کو ممکن بنانے میں پاکستان کے مثبت کردار کی دوسروں کے علاوہ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی ،امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو ،قطری وزیر خارجہ اور طالبان کے رہنماؤں نے بھی سراہا ہے ۔ جبکہ عالمی میڈیا کے معتبر اداروں نے بھی رپورٹ کیا کہ اس مشکل کام کو ممکن بنانے میں امریکہ اور طالبان دونوں کا زیادہ انحصار پاکستان پر رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ مائیک پومپیو نے معاہدے کے روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے دوحہ میں خصوصی ملاقات کی اور ان کو مستقبل کے اقدامات کے معاملے پر اعتماد میں لیا ۔جس روز معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے اسی روز امریکی وزیردفاع مارک ایسپر بعض دیگر حکام کے ہمراہ کابل گئے۔ جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ سے ملاقاتیں کیں اور ان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ کہا گیا کہ ان ملاقاتوں کے دوران افغان قیادت نے قطر معاہدے کا تو خیر مقدم کیا۔ تاہم انٹرا افغان ڈائیلاگ کے اہم ترین ایشو پر کئی قسم کے خدشات ظاہر کیے ۔ تاہم امریکی ٹیم نے ان پر واضح کیا کہ اس کے لئے زمین اور ماحول بنانا افغان کی قیادت کا بھی کام اور فرض ہے مگر لگ یہ رہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے۔ مثلاً معاہدے کے دوسرے روز اس وقت عجیب صورتحال پیدا ہوگئی جب ڈاکٹر اشرف غنی نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ بیان دیا کہ معاہدے میں 5000 افغان طالبان کی رہائی کا کوئی وعدہ شامل نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا افغان حکومت کے اختیار میں ہے اور یہ کام تکنیکی بنیاد پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان کے اس بیان نے دوسروں کے علاوہ امریکی حکام کو بھی حیرت میں ڈال دیا اور حالت یہ ہوگئی کہ سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے واشنگٹن میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران اس بیان کو توجہ حاصل کرنے کا حربہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ قیدیوں کی رہائی ڈیل یا معاہدے کا حصہ ہے۔ اسی طرح اشرف غنی کے نائب صدر امراللہ صالح نے ایک ٹویٹ میں معاہدے پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ ایشوز کا حل یہ بھی ممکن ہے جب افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات ہوں گے اور یہ کہ کوئی بھی طالب قیدی رہا نہیں کیا جائے گا۔ جس پر اشرف غنی کا موقف بالکل واضح ہے ۔ ایک اور عہدیدار رحمت اللہ نبیل نے بھی ٹویٹ کیا کہ افغان حکومت اور عوام کو اس معاہدےپر کئی قسم کے اعتراضات ہے۔ اس صورتحال یا مخالفانہ بیانات کے بارے میں جب طالبان کے ایک لیڈر سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی اور فورسز کی انخلاء ،معاہدے اور ان کے شرائط کے بنیادی نکات میں شامل ہیں ، جن پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق وہ اس سلسلے میں افغان حکومت کے حیثیت پر واضح موقف رکھتے ہیں کے طالبان اسے سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے۔اس لیے یہ امریکہ اور افغان حکومت کا مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق معاہدے کی کامیابی عملی اقدامات سے مشروط ہے اور اس کا فریقین کو احساس بھی ہے اور خبر بھی۔ دوسری طرف اشرف غنی نے اسی روز اعلان کروایا کہ وہ 8 مارچ کو نئے صدر کا حلف اٹھائیں گے۔ حالانکہ 10 مارچ کو بعض دوسرے اقدامات کے لیے مختص کیا گیا ہے ۔ اور عبداللہ عبداللہ بھی ابھی تک نہ صرف اشرف غنی کی کامیابی تسلیم نہیں کر رہے بلکہ وہ بھی حلف اٹھانے کا اعلان کر چکے ہیں ۔ اس صورتحال نے ان افغان لیڈروں اور مصالحت کاروں کو بھی پریشان کر دیا ہے جو کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کے اہم ترین ایونٹ کے لئے سرگرم عمل ہے اور ان کا خیال ہے کہ اس قسم کے رویے یا بیانات سے پورا عمل متاثر ہو سکتا ہے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی کی صدارت اور مجوزہ عبوری حکومت کے معاملے پر امریکہ اور افغان حکومت کی شدید اختلافات موجود ہے۔ اور ان اختلافات کے نتیجے میں اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں کو بعض امریکی حکام وارننگ بھی دے چکے ہیں۔ تمام صورتحال میں طالبان کو نفسیاتی اور سیاسی غلبہ حاصل ہے۔ اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ وائٹ ہاؤس نے 29 فروری کو یہ اطلاع بھی دی کہ صدر ٹرمپ طالبان قیادت سے ملاقات کا فیصلہ بھی کر چکے ہیں ۔ دوسری طرف طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوند نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ کئے گئے معاہدے کی پاسداری کریں گے اور امن کے لیے کیے گئے وعدے پورے کریں گے ۔انہوں نے بچوں اور خواتین کے حقوق کے مکمل تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اس تمام تر صورتحال نے ان حلقوں کوکافی مایوس کردیا ہے جو کہ ہر صورت میں جاری جنگ اور کشیدگی کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھتے آ رہے ہیں۔ ان میں بعض اہم ممالک بھی شامل ہیں۔ تاہم افغان عوام کی اکثریت نے معاہدے کا ناصرف خیرمقدم کیا ہے بلکہ وہ اس تاریخی اقدام کو امن کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں اور اس کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کی مخالفت اور مزاحمت کر رہے ہیں۔ مارچ کا مہینہ اس خطے ، افغانستان اور معاہدے کے عملی اقدامات کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اب فریقین کے درمیان اعصاب کی جنگ لڑی جائے گی۔ دراصل اب اعصاب کی جنگ شروع بھی ہو گئی ہے۔ جس کا بڑا ثبوت قیدی رہا نہ کرنے کے اعلان پر طالبان کا افغان فورسز کے خلاف حملوں کا غیر متوقع اعلان ہے۔