ایک طویل خونی اور مشکل جنگ کے بعد امریکہ اور طالبان قطر میں ایک برس کے مسلسل مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ جس سے یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ شاید اب جنگ ذدہ افغا نستان میں جاری خونریز لڑائی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ دوحہ مذاکراتی عمل کا باقاعدہ آغاز اپریل 2019 کے دوران کیا گیا تھا۔ جسکے بعد زلمے خلیل زاد اور عبدالغنی برادر کی زیر قیادت مذاکراتی ٹیموں کے درمیان 11 بار مذاکرات ہوئے۔ جبکہ 3 بار اس میں ڈیڈلاک کی صورتحال سامنے آئی۔ ستمبر 2019 میں فریقین ایک حتمی معاہدے پر پہنچ گئے تھے اور تیاریاں ہو چکی تھیں کہ اس دوران باگرام ائیر بیس پر حملہ کرایا گیا۔ جسکے ردِعمل میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 8 ستمبر کو مذاکرات کی معطلی کا اعلان کر دیا۔ تاہم پاکستان اور بعض دیگر ممالک کی کوششوں سے مذاکرات کا سلسلہ پھر سے شروع کیا گیا اور اسکا حتمی نتیجہ 29 فروری کے معاہدے کی شکل میں نکل آیا جس پر افغان عوام کے علاوہ پوری دنیا میں خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ 19 سالہ طویل جنگ کا آغاز نائِن الیون کے واقعے کے بعد افغانستان پر امریکہ اور اسکے 40 اتحادیوں کے حملے کے بعد ہوا تھا۔ اس جنگ میں جہاں ایک طرف تقریباً ایک لاکھ 45 ہزار افغان اہلکار اور سویلین جاں بحق اور زخمی ہوئے وہاں امریکہ کے 8000 فوجی اور غیر فوجی اہلکاروں سمیت نیٹو کے 11600 اہلکار بھی نشانہ بنے۔ دوسری طرف اس طویل جنگ کے نتیجے میں امریکہ کو 3.2 ٹریلین ڈالرز کی خطیر رقم کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ اور وہ افغانستان میں استحکام اور ترقی لانے میں بھی ناکام رہا۔
اس جنگ کا بنیادی امریکی مقصد افغانستان سے القاعدہ کا خاتمہ، وہاں امن لانا اور بظاہر اس خطرناک خطے کو انتہا پسندی سے صاف کرنا تھا۔ تاہم امریکہ اور اسکے اتحادی القاعدہ کے بظاہرخاتمے کے علاوہ کسی بھی دوسرے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور خطے کے علاوہ پوری دنیا میں انتہاپسندی اور امریکہ مخالف کاروائیوں میں مزید اضافہ ہوا۔ دوسری طرف افغان طالبان 2004 کے بعد پھر سے متحرک اور متحد ہو کر نیٹو اور افغان فورسز پر حملہ آور ہونے لگے اور یہ سلسلہ 2014 کے بعد نہ صرف زور پکڑ گیا بلکہ افغانستان کے تقریباً 45 فیصد علاقے پر عملاً طالبان کا ہولڈ یا کنڑول قائم ہوا کیونکہ عوام امریکہ اور اسکے اتحادی افغان حکمرانوں کو قابض اور مداخلت کار سمجھ کر طالبان کی درپردہ حمایت کرتے رہے۔
امریکہ کے اندر سے اس جنگ کو بے مقصد اور لاحامل قرار دیکر آوازیں آٹھنی شروع ہو گئیں اور اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے فورسز کی تعداد میں کمی کی۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا کہ کامیاب ہو کر وہ افغانستان اور بعض دیگر ممالک سے فوجیں نکالیں گے اور اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر اپریل 2019 میں مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا۔
طالبان اس جنگ یا جدوجہد کو اپنے وطن کی آزادی کی لڑائی قرار دیتے رہے، اسلئے وہ مسلسل لرتے رہے اور ان کا مطالبہ رہا کہ غیر ملکی افواج ان کے وطن سے نکل جائیں۔ دوسری طرف وہ اپنے 5000 قیدیوں کی رہائی سمیت بعض دیگر مطالبات بھی کرتے رہے اور ساتھ میں وہ امریکہ کو یہ یقین دہانی کرنے میں کامیاب ہوئے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہوگی۔ انہی بنیادی نکات پر 29 فروری کا معاہدہ سامنے آیا ہے تاہم اب بھی بہت سے سوالات اور خدشات موجود ہیں کہ آیا فریقین اس معاہدے پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں؟
سب سے بڑا مسئلہ اور سوال انٹر افغان ڈائیلاگ کا ہے۔ جس کے دوسرے مرحلے میں طالبان ، افغان حکومت اور افغان سیاسی قیادت کے درمیان تعلقات کار کا تعین کرنا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ افغان حکومت اقتدار کی رسہ کشی کے مسئلے پر تین حصوں میں تقسیم ہے۔ اشرف غنی اپنے مخالف عبداللہ عبداللہ کو نہیں مانتے جبکہ عبداللہ اشرف غنی کو صدر تسلیم نہیں کرتے۔ دوسری طرف گلبدین حکمت یار، حامد کرزئی اور رشید دوستم جیسے بڑے لیڈر بھی اشرف غنی کے مخالف ہیں۔ جبکہ بعض طاقتور حلقے معاہدے کے بعد ایک قومی عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں تا کہ اس کے ذریعے انٹرافغان ڈائیلاگ کا راستہ ہموار ہو اور طالبان کو مستقبل کے سیاسی اور پارلیمانی نظام کا حصہ بھی بنایا جائے۔ اسی پس منظر میں اشرف غنی کی تقریب حلف برداری امریکہ کے کہنے پر ملتوی کر دی گئی۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ طالبان کے بعض اہم کمانڈر اس معاہدے کو تسلیم نہیں کر رہے اور خدشہ ہے کہ وہ مزاحمت جاری رکھیں گے جس سے فریقین کے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
تیسرا بڑا مسئلہ افغان فورسز اور اداروں کو معاشی طور پر چلانے کا ہے۔ کیونکہ امریکہ پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ وہ افغانستان کا معاشی بوجھ اُٹھانے کا پابند نہیں ہے۔ جبکہ اسکی فورسز اور اداروں کا 70 فیصد معاشی انحصار امریکہ اور اتحادیوں پر ہے۔ عالمی میڈیا اس تمام عمل کو امریکہ کی شکست اور طالبان کی فتح کا نام دے رہے ہیں۔ جبکہ بعض اہم میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ نےافغانستان کو عملاً طالبان کے حوالے کر دیا ہے۔ نتیجہ جوبھی نکلے ایک بات طے ہے اور وہ یہ ہے کہ خطے میں امن کے امکانات روشن ہو گئے ہیں اور اب پراکسیز میں بھی کمی واقع ہوگی۔