شدت پسندی سے متعلق جید علماء کا فتویٰ
عقیل یوسفزئی
خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے 16 نمائندہ اور نامور علماء، مفتی حضرات نے ایک ایسے وقت میں شدت پسندی اور دہشت گردی سمیت بعض دیگر متعلقہ معاملات پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فتویٰ جاری کردیا ہے کہ پورے صوبے کو بالخصوص اور پختون خوا کو کافی عرصہ سے حملوں کا سامنا اور خطرہ ہے.
ان علماء نے قرار دیا ہے کہ جہاد یا قتال کو جائز قرار دینے کی اسلامی شرائط پر پاکستان پورا نہیں اترتا کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہ کہ یہاں پر اس قسم کی مزاحمت کو جائز نہیں کہلایا جاسکتا.
انہوں نے کہا ہے کہ جو فوجی، پولیس اور دیگر دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنتے ہیں وہ شہید ہیں کیونکہ ان علماء کے بقول وہ ایک اسلامی ریاست اور اس کے عوام کا تحفظ کررہے ہوتے ہیں. یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی مروجہ جمہوریت عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے. دلیل یہ دی گئی ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور نظام ریاست میں کسی کو خلاف اسلام قانون سازی یا دیگر اقدامات کی اجازت نہیں ہے. یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہاد کا اعلان خلیفہ وقت اور اسلامی ریاست دے سکتے ہیں نا کہ کوئی اور.
اس میں کوئی شک نہیں کہ جاری لہر اور بعض جہادی تنظیموں کے بیانیہ کے تناظر میں اس فتوے کی بہت علمی اہمیت ہے بلکہ یہ عوام کی رہنمائی کے لئے بھی بہت مفید ثابت ہوگا. اس سے قبل علماء اور خطباء نے جمعہ کے مبارک موقع پر نہ صرف دہشت گردی کی مذمت کی تھی بلکہ انہوں نے اس موقع پر فورسز کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا تھا.
یاد رہے کہ سال؛ 18 _20017 کے دوران ملک بھر کے تقریباً 1800 علماء نے بھی ایسا ہی ایک فتویٰ جاری کیا تھا جن میں مفتی اعظم پاکستان بھی شامل تھے جبکہ امام کعبہ، جامعہ الاظہر مصر سمیت مختلف دیگر علمی مراکز اور شخصیات بھی وقتاً فوقتاً جہاد، قتال اور شدت پسندی، دہشت گردی پر ایسے ہی موقف دیتے رہے ہیں.
اگرچہ جہادی تنظیموں اور ان کے سربراہان کا اپنے طرزِ عمل کی حمایت میں اپنے مخصوص دلائل ہیں اور وہ بوجوہ اپنی نظریات اور مزاحمت کو درست قرار دینے کی کوشش کرتے آرہے ہیں تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس معاملے پر اکثریت کی رائے حملہ آور قوتوں سے مختلف ہے اور اس نکتے پر سب کا اتفاق ہے کہ اسلامی تعلیمات کے رو سے کسی بے گناہ کو قتل کرنا نہ صرف گناہ عظیم ہے بلکہ یہ انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے.
ماضی میں درجنوں علماء کو خودکش حملوں اور ایسی دیگر کارروائیوں کی مخالفت کی بنیاد پر شہید کرنے کی متعدد مثالیں موجود ہیں تاہم یہ علماء کے فرائض میں آتا ہے کہ وہ ایسے معاملات پر ٹھوس اسلامی دلائل کی بنیاد پر عوام کی رہنمائی کریں.
اس اقدام سے ریاستی بیانیہ کو تقویت ملی ہے اور عوام کو رہنمائی ملی ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے معاشرے کے دوسرے طبقات کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور نیشنل ایکشن پلان کے ان نکات پر مکمل عملدرآمد کیا جائے جو کہ معاشرے اور ملک میں شدت پسندی کے خاتمے سے متعلق ہیں تا کہ ملک کو ایک فلاحی ریاست بنایا جاسکے اور امن کے دیرپا قیام کو یقینی بنایا جاسکے.
اس کے علاوہ ان افراد کو رعایت اور محفوظ راستہ دینے کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھا جائے جو کہ اسلحہ رکھ کر پرامن شہریوں کی حیثیت سے رہنے کی خواہش رکھتے ہیں.