Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, May 19, 2024

دہشت گردی کا ایشو اور عمران خان کا بیانیہ

دہشت گردی کا ایشو اور عمران خان کا بیانیہ

عقیل یوسفزئی

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے پاس جدید امریکی اسلحہ اور سہولیات ہیں اس لیے پختون خوا پولیس ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی. موصوف نے یہ بھی کہا کہ اس کالعدم تنظیم کے تقریباً 40 ہزار کارکنوں کو ان کی حکومت ری سیٹ کررہی تھی اور اس مقصد کیلئے مزاکراتی عمل جاری تھا کہ ان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا. ان کے مطابق ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی تعداد 5000 کے لگ بھگ ہے.اس نام ونہاد یکطرفہ سیمینار سے اپنے خطاب میں وزیر اعلیٰ پختون خوا نے کہا کہ رجیم چینج کے بعد پختون خوا کو 373 بار حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور یہ کہ وفاقی حکومت قبائلی علاقوں کے لئے فنڈز جاری نہیں کررہی.
سابق وفاقی وزیر مرادسعید نے ایک بار پھر جاری لہر کو مبینہ طور پر ریاست کی سازش قرار دیکر ایسے الزامات لگائے جن کی بنیاد محض مفروضوں پر قائم ہے.
اس سیمینار کے انعقاد کا مقصد کیا تھا، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کے شرکاء کون تھے اس پر بہت سے سوالات پوچھے جاسکتے ہیں تاہم یہاں کہنا یہ مقصود ہے کہ عمران خان، محمود خان اور مرادسعید نے جو یکطرفہ بیانیہ بیان کرکے عوام، حملہ آوروں اور سب سے بڑھ کر پختون خوا پولیس کو کیا پیغام دینے کی کوشش کی.
عمران خان کے کہنے کا تو کھلم کھلا مقصد پولیس اور دیگر فورسز کا مورال ڈاون کرکے ان پر یہ واضح کرنا تھا کہ وہ حملہ آوروں سے نہیں لڑ سکتیں. انہوں نے اس پولیس فورس کی قربانیوں اور کارکردگی کو سوالیہ نشان بنایا جو کہ سینکڑوں کی تعداد میں جانوں کی قربانی دے چکی ہے اور اب بھی جرات سے لڑائی لڑ رہی ہے.
جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے اس کا فائدہ ٹی ٹی پی اور نقصان ریاست نے اٹھایا ہے اور عمران خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب تک جتنے بھی معاہدے ہوئے وہ نہ صرف ریاست کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے بلکہ اب کی بار جو شرائط ٹی ٹی پی کی جانب سے پیش کی گئی تھیں ان پر عمل درآمد کرنا ریاست کے لیے ممکن ہی نہیں تھا. ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ 10 اگست 2022 کو طالبان ہی سوات وغیرہ پر حملہ آور ہوگئے تھے نا کہ ریاست نے سیز فایر کی خلاف ورزی کی تھی. ایسے میں مذاکرات کا جاری رکھنا ممکن ہی نہیں رہا تھا

جہاں تک وزیراعلیٰ کے کردار اور دلچسپی کا تعلق ہے اس کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ وہ لمبے عرصے تک سوات جانے سے بھی گریز کرتے رہے اور اب بھی ان کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلانے میں بھی ناکام رہے ہیں.
یہ بات بہت افسوس ناک ہے کہ تحریک انصاف اور اس کی صوبائی حکومت عوام اور ریاست کے تحفظ اور نمایندگی کرنے کی بجائے قومی سلامتی کو درپیش اس سنگین مسئلہ یا تو کوئی بڑا چیلنج نہیں سمجھتیں یا ان کی ہمدردیاں کسی اور کے ساتھ ہیں. ورنہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے یہ پارٹی ریاست اور عوام کے ساتھ کھڑی نظر آتی.
ابہام پر مبنی پالیسی کے باعث سول ادارے وہ رسپانس نہیں دے پارہے جس کی صوبے کو ضرورت ہے. اگر ملٹری حکام چوکس نہ ہوتے اور صوبائی حکومت پر معاملات چھوڑے جاتے تو اب تک یہ صوبہ حملہ آوروں کے سامنےخدانخواستہ سرینڈر ہوچکا ہوتا. جہاں تک قبائلی علاقوں کا تعلق ہے وزیراعلیٰ موصوف ان علاقوں کو شاید صوبے کا حصہ ہی نہیں سمجھتے. وفاقی حکومت کو ذمہ دار قرار دینے کا حربہ خود کو بری الزمہ قرار دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے.
عمران خان کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ پنجاب حکومت اور اسمبلی کی طرح جنگ زدہ صوبے یعنی پختون خوا حکومت، اسمبلی توڑنے کا اقدام بھی اٹھارہے ہیں حالانکہ یہاں کے سیاسی، انتظامی اور حکومتی معاملات نہ صرف پنجاب سے بلکل مختلف ہیں بلکہ صوبہ حالت جنگ میں ہے اور فورسز روزانہ کی بنیاد پر قربانیاں دیکر حالات کو پرامن رکھنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں.
ضرورت اس بات کی ہے کہ حالات اور چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے قومی سلامتی سے متعلق معاملات پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے گریز کیا جائے اور غیر سنجیدہ رویہ ترک کرکے فورسز اور عوام کے ساتھ کھڑا ہوا جائے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket