عام انتخابات میں خواتین کی بھرپور نمائندگی
عقیل یوسفزئی
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں اب کے بار سیکورٹی چیلنجز کے باوجود خواتین کی قابل ذکر تعداد حصہ لے رہی ہے۔ عام مگر خلاف حقیقت تاثر کے برعکس پشاور سمیت صوبے کے تقریباً تمام اضلاع میں مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والی تقریباً 50 خواتین میدان میں ہیں ۔ اب کے بار ان کی موجودگی صرف الیکشن کمیشن کی شرائط پوری کرنے تک محدود نظر نہیں آرہی بلکہ اکثر خواتین مرد اُمیدواروں سے بھی اچھی مہم چلاتی دکھائی دے رہی ہیں جو کہ قابل تعریف پیش رفت ہے ۔ اس ضمن میں ہم پشاور کی مثال دے سکتے ہیں جہاں اے این پی کی صوبائی سیکرٹری ثمر ہارون بلور اس کے باوجود شاندار طریقے سے انتخابی مہم چلارہی ہیں کہ ان کو سیکورٹی تھریٹس بھی ہیں اور گزشتہ انتخابات کے دوران ان کے شوہر ہارون بلور ساتھیوں سمیت ایک دہشت گرد حملے میں جان کی قربانی دے چکے ہیں ۔ اے این پی کی ایک اور لیڈر شگفتہ ملک بھی بہت فعال دکھائی دے رہی ہیں ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی متعدد خواتین عام انتخابات میں بعض دیہاتی یا نسبتاً پسماندہ علاقوں سے زبردست انداز میں انتخابی مہم چلارہی ہیں ۔ اس ضمن میں بونیر سے پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والی ڈاکٹر سمیرا پرکاش کی مثال دی جاسکتی ہے جن کو عالمی اور ملکی میڈیا نے نمایاں کوریج سے نوازا اور وہ سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں ۔ پارٹی نے ایک اور فعال خاتون مہر سلطانہ کو بھی میدان میں اتارا ہے جو کہ لکی مروت جیسے علاقے سے ڈور ٹو ڈور کمپین چلاتی آرہی ہیں اور اس بولڈ اقدام کو جمہوریت پسند حلقوں میں کافی سراہا جارہا ہے ۔ اسی طرح اے این پی نے چترال جیسے ضلع سے بھی ایک فعال خاتون امیدوار کو میدان میں اتارا ہے ۔ سابق صوبائی وزیر ستارہ آیاز صوابی سے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے بہت روایتی انداز میں ڈور ٹو ڈور کمپین چلاتی دکھائی دے رہی ہیں اور ان کی اس انٹری کو بھی عوامی سطح پر ایک اہم تبدیلی کے طور پر لیا جارہا ہے ۔ مسلم لیگ ن کی سابق ایم پی اے صوبیہ خان بھی کافی سرگرم نظر آرہی ہیں ۔ اس تمام صورتحال نے جہاں دنیا پر یہ ثابت کردیا ہے کہ خیبرپختونخوا مقبول عام تاثر کے برعکس سیکورٹی چیلنجز کے باوجود نہ صرف یہ کہ جاری انتخابی مہم میں سب سے آگے ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ یہاں کی خواتین بھی مرد اُمیدواروں کی طرح بھرپور انتخابی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں ۔ وہ تمام پارٹیاں قابل تعریف ہیں جنہوں نے اپنی متحرک فی میل اُمیدواروں کو انتخابی عمل کا حصہ بنادیا ہے ، اس پریکٹس سے سوسائٹی کی سوشل اور پولیٹیکل اسٹرکچر پر یقیناً بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔