Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Tuesday, September 10, 2024

قبائلی اضلاع کے انضمام سے عوام کو حاصل حقوق

سات قبائلی ایجنسیوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کے تاریخی فیصلے کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں اور بعض رکاوٹوں کے باجودجہاں ایک طرف ان ضم شدہ اضلاع میں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال بہت بہتر ہوگئی ہے وہاں اس جنگ زدہ علاقے کی سماجی اقتصادی صورت حال میں بھی نمایاں بہتری اور تبدیلی رونما ہونے لگی ہے۔ انضمام کے دوران سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے علاوہ معاشی استحکام اور ترقی کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ جبکہ عوام کو اس تمام مرحلے کے دوران اعتماد میں لینے کے لیے دو مہینوں پر مشتمل ایک مشاورتی عمل کا اہتمام کیاگیا جس کی روشنی میں جہاں جون کے پہلے ہفتے کے دوران ایک 53 رُکنی قبائلی وفد نے کابل کے دورہ کرکے تحریکِ طالبان پاکستان کے قائدین اور افغان حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے اہم مذاکرات کیے وہاں اس مشاورتی عمل کے تحت رواں برس کے لیے مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کے ہوم ورک کا بھی آغاز کیاگیا تاکہ عوام کو انضمام کے فوائد سے مستفید کیا جاسکے۔

بعض حلقے انضمام کے وقت اس فیصلے کی مخالفت کررہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ان اضلاع پر مشتمل ایک الگ صوبہ قائم کیا جائے۔ اس مطالبے کو سیاسی حمایت حاصل نہ ہوسکی اور یہ علاقے صوبہ خیبر پختونخوا ہی میں شامل کیے گئے۔ انضمام کے وقت سیاسی مشاورت کے نتیجے میں ایک10 سالہ پیکیج کا اعلان کیاگیا جس پر سرتاج عزیز کمیٹی نے کئی ماہ تک کام کیا تھا۔
اس ضمن میں عوام کو سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچا کہ یہ پہلی بار قبائلی علاقوں میں سیاسی اور جماعتی سرگرمیوں کی بنیاد پر خیبر پختونخوا اسمبلی کا حصہ بن گئے اور اس وقت صوبائی کابینہ میں تین وزراء کا تعلق ان علاقوں سے ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ان اضلاع میں صوبائی الیکشن کا انعقاد ہو رہا تھا تو لوگوں کی آراء کے برعکس کہیں پر بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا اور انتخابی مہم اور پولنگ اتنی پرامن رہی کہ کئی عالمی اداروں نے اس رویے کو اپنی پوزیشن کا حصہ بنایا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بعد پہلی بار ان علاقوں کو کے پی اسمبلی اور کابینہ میں نمائندگی ملنے کے فیصلے نے عوام کو یہ احساس دلایا کہ ان کو بھی اب وہ حقوق حاصل ہیں جو کہ آئین نے پاکستان کے دوسرے باشندوں اور علاقوں کو دے رکھے ہیں اور قبائلی عوام نام نہاد نیم خود مختاری کے باعث ان کے حقوق سے یکسر محروم اور نابلد تھے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ سال2021 کے دوران کے پی اسمبلی میں جن ممبران نے دلائل کی بنیاد پر مباحث اور اسمبلی کارروائیوں میں سب سے زیادہ اورمؤثر حصہ لیا ان میں اکثریت کا تعلق ان علاقوں سے ہے جو کہ حیرت کی بات بھی ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان عوامی نمائندوں نے عوام کے حقوق کا اپنا فریضہ بہتر طریقے سے سرانجام دیااور متعدد مواقع پر ان ممبران اسمبلی نے سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو اجتماعی مسائل کے حل کے لیے مثالی اتحاد کا مظاہرہ بھی کردکھایا۔ کے پی اسمبلی میں ان کی نمائندگی اور موجودگی کے بہت مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ جبکہ صوبائی بیوروکریسی میں ٹاپ کی متعدد پوزیشنوں پر درجنوں افسران خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں کمانڈنٹ ایف سی اور سابق آئی جی صلاح الدین محسود اور کمشنر پشاور ریاض خان محسود کی مثال دی جاسکتی ہے جنہوںنے اہم ترین خدمات سرانجام دیں
صوبائی اسمبلی کی نمائندگی کے بعد ان علاقوں میں دو مراحل کے دوران بلدیاتی انتخاب کا انعقاد کیا گیا۔ اس مہم اور پولنگ کے دوران اُمیدواروں ، ان کے حامیوں اور ووٹرز نے سیاسی شعور کی نئی مثالیں قائم کیں اور یوں ان علاقوں میں ایک کامیاب ترین بلدیاتی نظام کو سیاسی بنیادوں پر قائم کرنے کا انوکھا تجربہ بھی کیا۔ اس الیکشن میں بعض اضلاع میں خواتین اُمیدواروں نے بھی مہم چلائی اور ان کی بڑی تعداد بلدیاتی اداروں کا حصہ بن گئی جبکہ نوجوانوں کی قابلِ ذکر تعداد بھی سیاسی عمل کے ذریعے متعارف ہوئی۔ صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی الیکشن کے ان دونوں ایونٹس میں جن پارٹیوں کو خاطر خواہ کامیابی ملی ان میں تحریکِ انصاف ، جے یو آئی (ف) اے این پی اور جماعت اسلامی سرفہرست رہی ہیں۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں سیاسی پارٹیاں ماضی کے مقابلے میں بہت فعال ہو گئی ہیں اور ریاست نازک سکیورٹی صورتحال کے باوجود تمام پارٹیوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کرتی آرہی ہے بلکہ سیاسی اور جماعتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ایک مربوط پالیسی پر بھی گامزن ہے۔ اس وقت شہباز شریف کی زیرِ قیادت وفاقی کابینہ میں چار وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کا تعلق ان علاقوں سے ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ماضی کی زیادتیوں کی تلافی کی جارہی ہے اور ان علاقوں کی مین سٹریمنگ پر غیر معمولی توجہ دی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ انتظامی سطح پر بھی انضمام کے بعد متعدد دوسرے لازمی اقدامات کا عمل بھی جاری ہے۔ اس ضمن میں ہم عدالتوں کے قیام کی مثال دے سکتے ہیں جن کو پہلی بار عام پاکستانی عدالتوں کی طرح قبائلی علاقوں تک توسیع دی گئی ہے اور بعض عدالتوں نے متعدد اہم فیصلے بھی سنا دیے ہیں۔ اگرچہ اس ضمن میں بہت سے کام کرنا باقی ہیں تاہم یہ ضرور ہوا ہے کہ ایک تو ان لاکھوں شہریوں کو انضمام کے باعث ایف سی آر اور دوسرے ظالمانہ قوانین سے مستقل نجات مل گئی ہے اور اب ان کو دلیل اور اپیل کا حق حاصل ہے وہاں دوسری طرف جرائم سے نمٹنے کے لیے پولیس کا نظام بھی متعارف کرایاگیا ہے اور تقریباً 15000 پولیس اہلکار ان علاقوں میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق مقامی آبادی سے بتایا جاتا ہے۔ ان میں وہ چھ، سات ہزار لیویز اہلکار بھی شامل ہیں جو کہ مقامی طور پر فرائض سرانجام دے رہے تھے اور اب پولیس فورس کا حصہ ہیں۔متعلقہ ریاستی اداروں خصوصاً پاک فوج نے جہاں سکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنایا وہاں لاتعداد ترقیاتی منصوبے بھی شروع کیے جن میں سکولز، کالجز، سٹیڈیم اور سڑکیں قابلِ ذکر ہیں۔
ایک مستقل فارمولے کے تحت سول اداروں کو اختیارات کی منتقلی کا عمل بھی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔سیاسی اور جمہوری حقوق کے علاوہ ان علاقوں کے عوام کو بعض معاشی اور سماجی حقوق بھی ملنا شروع ہوگئے ہیں اور نوجوان کی بہت بڑی تعداد کی نہ صرف کونسلنگ کرکے ان کو لاتعداد سرگرمیوں کا حصہ بنایاگیا بلکہ ان کو ذمہ دار اور باروزگار شہری بنانے کی کوششوں پر غیر معمولی توجہ دی گئی ۔ اس ضمن میں 5 جون کو پشاور میں منعقدہ ایک سپورٹس ایونٹ کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں قبائلی پٹی سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں ان سٹوڈنٹس کو خصوصی طور پر بلایا گیا جو کہ مدارس میں پڑھ رہے ہیں اس ایونٹ سے کمانڈر پشاورکور نے خود خطاب کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ قبائلی عوام خصوصاً نئی نسل کو آگے بڑھانے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور ان علاقوں کو تیزترین ترقی سے ہمکنار کیا جائے گا۔
اس ایونٹ کو انٹر مدارس سپورٹس چیمپیئن شپ کا نام دیاگیا جو کہ کئی روز تک جاری رہا۔ اس میں ضم اضلاع کے800 سے زائد مدارس کے طلباء نے سات مختلف گیمز میں حصہ لیا اور پشاور کور نے اس ایونٹ کی کامیابی کے لیے تمام درکار اقدامات کیے جس سے بہت اچھا پیغام گیا۔
اس سے اگلے روز خیبر پختونخوا کی پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اسلام آباد میں قبائلی اضلاع کے لیے تین سالہ اے آئی پی فیز 2 کا اجراء کیاگیا۔ اس ایونٹ میں 3 متعلقہ صوبائی وزراء کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں اور چھ اہم ممالک کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر اے سی ایس خیبر پختونخوا شہاب علی شاہ نے کہا کہ اے آئی پی فیز2 کی تشکیل میں ضم شدہ اضلاع کے25 سب ڈویژنز میں منعقدہ مشاورتی نشستوں کے دوران پیش کی گئی تجاویز کو بنیاد بنایاگیاہے تاکہ تعلیم، صحت، مواصلات، زراعت اور دوسرے شعبوں میں عوامی ضروریات کے تحت بہتری لائی جاسکی اور عوام کی آراء کو مقدم رکھ کر اقدامات کیے جائیں۔انضمام کے چند اور بہتر اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سابقہ فاٹا میں فنڈز کے استعمال کی مانیٹرنگ اور احتساب وغیرہ کا کوئی نظام نہیں تھا اور پولیٹیکل ایجنٹس ہی کو کالونین سسٹم کے تحت غیر معمولی اختیارات حاصل تھے۔ اب ایسا نہیں ہورہا۔ سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے سفیران کے چیئر مین سینیٹر ہلال الرحمن نے مئی2022 میں چیئر مین سینیٹ اور حکومت کی توجہ ایک کیس کی جانب مبذول کرائی جس میں کہاگیا تھا کہ2020-21 کے دوران قبائلی علاقوں کے فنڈز میں اربوں کا ریکارڈ دستیاب نہیں اور یہ کہ اس بات کی انکوائری کرائی جائے کہ تقریباً 44 ارب روپے کہاں اور کیسے خرچ ہوئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اسی سٹیڈنگ کمیٹی نے ہلال الرحمن کی قیادت میں قبائلی علاقوں کے بعض ممبران قومی اسمبلی اور بعض اداروں سے50 کروڑ روپے کی ریکوری کرلی اور یہ رقم ریکارڈ وقت میں قومی خزانے میں جمع کرائی گئی جو کہ تحقیقات کے مطابق بدعنوانی اور بدانتظامی کی نذر ہوگئی تھی۔
رابطے پر سینیٹر ہلال الرحمن نے بتایا کہ قبائلی علاقوں کے مسائل بہت زیادہ اور مشکلات کافی پیچیدہ ہیں۔عوام نے انضمام سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی تھیں کیونکہ وہ نظام اور گورننس میں بنیادی تبدیلیاں اور بہتری چاہتے تھے اور انضمام کے ذریعے ان کو یہ ممکن دکھائی دینے لگا تھا تاہم اس تاریخی فیصلے کے نتائج میں کافی رکاوٹیں حائل تھیں جن کو دُور کرنے کے لیے سیاسی عدمِ استحکام کے باعث درکار توجہ نہیں دی گئی۔ کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ قبائلی اضلاع کی تعمیرو ترقی کو قومی ترجیحات میں سرِ فہرست رکھا جائے تاکہ عوام کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کی تلافی ہو اور ان کے تمام جائز آئینی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
سابق سیکرٹری داخلہ اور ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر اختر علی شاہ نے رابطے پر بتایا کہ انضمام کا فیصلہ اور عمل ایک تاریخی اقدام ہے اور اس کے سکیورٹی کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے پر بتدریج بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے مطابق ان اضلاع کو برٹش راج کے دور سے بفر زون کے طور پر استعمال کرنے کے لیے بدترین کالونین سسٹم کا سامنا رہا جبکہ یہ علاقہ دو تین دہائیوں تک انتہا پسندی کا بھی شکار رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے مسائل صدیوں پر محیط ہیں اور یہ توقع رکھنا غیر مناسب طرز عمل ہوگا کہ یہ مسائل چند برس میں حل ہو ں۔ نتائج کے لیے انتظار کرنا پڑے گا اور تبدیلی کے عمل کی رفتار کو تیز کرنا پڑے گا۔ ان علاقوں کواﷲ تعالیٰ نے بے شمار قدرتی اور انسانی وسائل سے نوازا ہے۔ اگر امن قائم ہو جائے اور گورننس کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے تو یہ علاقہ پورے پاکستان کے معاشی اور سماجی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket