جاری بحران کا حل اور پاکستان کا مستقبل

بلاشبہ پاکستان کو سیاسی معاشی اور سماجی سطح پر سنگین قسم کے مسائل کا سامنا ہے اور فی الحال جاری بحران کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تاہم یوں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے مسائل کا حل نہیں ڈھونڈا جاسکتا اور قومی قیادت اور اہم اداروں کو بلیم گیم پر انحصار کرنے کی بجائے مزید بگاڑ سے قبل کوئی ایسا راستہ اور طریقہ نکالنا پڑے گا جس کے ذریعے کشیدگی کو کم کر کے حالات کو نارمل بنایا جا سکے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نہ صرف اقتدار سے محرومی کو اب بھی ایک مبینہ سازش کا نام دے رہے ہیں بلکہ ان کا غصہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے اور وہ اپنے کارکنوں اور عوام کو بھی غصہ اور اشتعال دلا رہے ہیں جو کہ سماجی بے چینی کا سبب بنتا جارہا ہے اور معاشرے میں انارکی پھیلنے کا خدشہ اب یقین میں تبدیل ہو رہا ہے۔ سیالکوٹ کے جلسہ عام میں وہ جہاں پہلے سے زیادہ غصہ دکھائی دیے وہاں انہوں نے انکشاف کیا کہ اقتدار گرانے کے بعد اب ان کو خدانخواستہ قتل کرنے کی ایک سازش تیار کی گئی ہے اور انہوں نے ایک ویڈیو میں مجوزہ یا مبینہ سازش کے کرداروں کے نام بتا دیے ہیں تاکہ قوم کو بعد میں پتہ چل جائے کہ اس سازش میں کون کون ملوث تھے۔ حکومت نے اس انکشاف یا الزام کو دباؤ بڑھانے کا حربہ قرار دیا ہے تاہم سنجیدہ حلقے اس الزام کو ماضی کے بعد تلخ واقعات اور سانحات کے تناظر میں کافی تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسی تناظر میں جہاں ایک طرف عمران خان کو فل فلیج سکیورٹی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہاں بعض حلقے سابق وزیراعظم سے یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ اگر ایسی کسی سازش کا واقعی کوئی پلان یا ثبوت ہے تو ان کو ذمہ داری کے ساتھ سامنے لایا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں اور دوسروں کی طرح ان کی حفاظت بہرحال حکومتی اداروں کا کام ہے تاہم ان کو بھی چاہیے کہ وہ ریاست پر بار بار حملہ آور ہونے اور کارکنوں کو اشتعال دلانے کے اپنے نظریہ پر نظر ثانی کر کے ڈیموکریٹک پیرامیٹرز کے اندر رہتے ہوئے اداروں کے ساتھ تعاون کریں تصادم کا سلسلہ چل نکلا تو زیادہ نقصان ان کا اور ملک کا ہوگا۔
ماضی میں جہاں ہمارے کئی پاپولر حکمران اور سیاستدان بد احتیاطی اور غیر ضروری کشیدگی کے باعث جانیں کھو چکے ہیں جبکہ دشمن قوتیں ایسے ہی ماحول اور کشیدگی کا فائدہ اٹھانے کی تاک میں رہتی ہے۔ اس لیے اپنی حفاظت اور ملک کی سلامتی کو مقدم رکھا جائے سیاست چلتی رہے گی اور اقتدار بھی ملتا رہے گا توجہ اس بات پر مرکوز رکھنی چاہیے کہ ریاست کا دفاع کر کے عوام میں نفرت پھیلانے اور دوریاں بڑھانے کا رویہ ترک کیا جائے۔
حال ہی میں قبائلی علاقوں اور بلوچستان اور سندھ میں حملوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ سامنے آیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں فوجی گاڑی پر خودکش حملہ کرایا گیا اور ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات ہوئے تو پشاور میں کوچہ رسال دار کی طرز پر ایک اور حملے کا منصوبہ ناکام بنا کر اس واقعہ کے ماسٹر مائنڈ کو مارا گیا۔
دوسری طرف سندھ اور بلوچستان کے حالات بھی بگڑتے دکھائی دیئے جبکہ افغانستان کے حالات بھی اس کے باوجود خراب ہونے کے باعث ہم پر اثر انداز ہورہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان حکومت اور ایک نمائندہ قبائلی جرگہ کے ذریعے مذاکرات کا سلسلہ تیز کیا گیا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ پاک فوج کو سیاست اور جاری کشیدگی میں کھینچنے سے قطعی طور پر گریز کیا جائے تاکہ ان کی پوری توجہ سیکورٹی کے معاملات پر مرکوز ہو اور فوج کو اس بات کا یقین ہو کہ سیاسی قوتیں اور عوام ان کے ساتھ ہیں۔
رہی بات عمران خان کے اس مطالبے کی کہ قبل از وقت الیکشن کرائے جائیں اس پر بات ہو سکتی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ الیکشن کے نتائج عمران خان کی مرضی کے مطابق نہیں نکلے تو پھر کیا ہوگا کیونکہ وہ ماضی میں کئی بار انتخابی نتائج مسترد کرکے مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ نئے انتخابات کی صورت میں معاشی بحران کم یا ختم ہو گا اگر ایسا عمران خان کر سکتے تو ان کی راہ میں پونے چار سالہ دور حکومت میں عملاً کوئی رکاوٹ حائل نہیں تھی۔ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ کھڑی رہی اور اپوزیشن برائے نام تھی۔ اس لیے جذباتی اور مزاحمتی ماحول بنانے کی بجائے تلخ حقائق کا سامنا کرتے ہوئے ماحول کو نارمل بنایا جائے اور پاکستان کے قومی مفاد کو ترجیح دی جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket