سوات میں عوامی مظاہرے، حکومتی موقف اور درپیش چیلنجز

سوات میں عوامی مظاہرے، حکومتی موقف اور درپیش چیلنجز

عقیل یوسفزئی

سوات میں بعض واقعات کے بعد عوام نے مبینہ دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف مظاہرے کئے جن میں ہزاروں افراد شریک ہوئے جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنی تقریروں میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرامن احتجاج کرنا عوام اور سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے اور امن کو برقرار اور یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم اس بات کا خیال رکھنا بھی بے حد ضروری ہے کہ درپیش چیلنجز کے تناظر میں متعلقہ ریاستی اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے گریز کیا جائے تاکہ امن دشمن قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور ریاستی اداروں کو عوامی حمایت حاصل ہو.
سوات سمیت پورے خیبر پختون خوا میں شدت پسندوں کی سرگرمیاں افغانستان کے حالات کے تناظر میں غیر متوقع نہیں ہیں تاہم ماضی کے مقابلے میں مجموعی طور پر صورتحال کافی بہتر ہے اور مختلف علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں. جس روز سوات میں عوام نے احتجاج کیا اس سے ایک روز شمالی وزیرستان میں ایک کارروائی کے دوران 2 مطلوب دہشت گردوں کو مارا گیا جبکہ اس سے قبل پشاور میں بھی متعدد کو ہلاک کیا گیا تھا. ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس خیبر پختون خوا میں 100 سے زائد ٹارگٹڈ آپریشن کئے گئے ہیں جبکہ حملوں کے دوران سب سے زیادہ کارروائیاں فورسز خصوصاً پولیس کے خلاف کی گئی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فورسز ہی کو زیادہ قربانیاں دینی پڑی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فورسز امن کے قیام کے لئے مسلسل کارروائیاں کرتی ارہی ہیں. ایسے میں لازمی ہے کہ ردعمل کے دوران ذمہ داری اور احتیاط سے کام لیا جائے.بعض حلقوں کی جانب سے فورسز کو بعض واقعات کے تناظر میں موردِ الزام ٹھرانے سے جھاں بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں وہاں امن مخالف قوتوں کو فائدہ اٹھا نے کے مواقع بھی مل جاتے ہیں. معاشرے میں ایسے ہی حالات اور بدگمانیاں قومی اتحاد اور مشترکہ موقف کو نقصان پہنچانے کی وجہ بنتی ہے اس لیے بعض واقعات کو بنیاد بنا کر امن دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچانے سے گریز نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ناگزیر بھی ہے۔ یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ پراکسیز کی مختلف حربوں کے دوران ہمیشہ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ عوام اور ریاست کے درمیان دوریاں اور بدگمانیاں پیدا کی جائیں.
ایسا نہ ہو کہ ہم غیر ارادی طور پر کسی ایسی مہم کا حصہ بن جائیں جس سے قومی اور عوامی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہو. تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو اعتماد میں لیکر ان کے خدشات دور کرے. ترجمان محمد علی سیف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سوات کی صورت حال قابو میں ہے اور حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہے تاہم دوسری طرف اسی پارٹی کے مرکزی رہنما مراد سعید کچھ اور کہتے دکھائی دے رہے ہیں اور وہ کھلے عام ریاستی اداروں کو جاری صورتحال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں. ان کو اگر ریاستی اداروں کی کسی پالیسی سے واقعتاً کوئی اختلاف ہے تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت متعلقہ فورمز استعمال کرے کیونکہ امن قائم رکھنا بنیادی طور پر صوبائی حکومت ہی کا کام ہے. غیر ذمہ دارانہ بیانات اور الزامات سے یہ لوگ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے.
میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کو بھی ذمہ داری اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ بعض مواقع پر کسی واقعے کی یکطرفہ تشہیر اور پروپیگنڈا کا استعمال بہت بڑے اجتماعی نقصان کا سبب بن سکتا ہے اور بن رہا ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket