Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, April 28, 2024

اکتوبر16، سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا امتحان

16 اکتوبر _سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا امتحان
عقیل یوسفزئی

16 اکتوبر بروز اتوار خیبر پختون خوا کے تین اضلاع میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کے دوران نہ صرف یہ کہ سخت مقابلے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے بلکہ اس کے نتائج سے صوبے کی تین بڑی پارٹیوں کی مقبولیت اور اہمیت کا اندازہ لگانا بھی ممکن ہوجائے گا. اسی پس منظر میں تجزیہ کار اس اہم انتخابی مرحلے کو مستقبل کے پارلیمانی منظر نامہ کے حوالے سے بہت اہمیت دے رہے ہیں.

جن تین اضلاع میں اس انتخابی عمل کا انعقاد کیا جارہا ہے ان میں پشاور، مردان اور چارسدہ شامل ہیں. یہ نشستیں تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہونے سے خالی ہوئی ہیں.اس الیکشن کی منفرد بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان تینوں حلقوں سے امیدوار ہیں۔ وہ اس سے قبل پشاور کے اسی حلقے سے کامیابی حاصل کرچکے ہیں تاہم انہوں نے بعد میں یہ نشست چھوڑ دی تھی. اب کی بار ایک بار پھر ان کا مقابلہ اے این پی کے سینئر رہنما حاجی غلام احمد بلور سے ہے جن کو پی ڈی ایم کی حمایت بھی حاصل ہے. اگر جناب بلور کو پھر سے ناکامی کا سامنا پڑ گیا تو اس شکست کو صرف اے این پی کی ناکامی کا نام نہیں دیا جائے گا بلکہ یہ پی ڈی ایم کی شکست سمجھی جائے گی. یہی صورتحال چارسدہ اور مردان میں بھی سب کو درپیش ہے. چارسدہ میں ایمل ولی خان ایک مضبوط مشترکہ امیدوار ہیں جبکہ مردان کے متعلقہ حلقے میں جے یو آئی ف کے سینئر رہنما مولانا محمد قاسم ایک مشترکہ امیدوار کے طور پر میدان میں اترے ہیں. مولانا کو تمام اہم پارٹیوں کی حمایت کے علاوہ عام لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہے کیونکہ علاقے میں ان کی بڑی قدر کی جاتی ہے جس کا گزشتہ روز ایک جلسے میں خود عمران خان نے بھی اعتراف کیا.

اگرایک طرف سب پارٹیاں عمران خان کے خلاف متحد ہوگئی ہیں تو دوسری طرف جناب عمران خان کو بوجوہ اب بھی ان علاقوں میں کافی مقبولیت حاصل ہے. اصل دباو اور امتحان کا سامنا عمران خان یا ان کی پارٹی کو نہیں ہے بلکہ مخالف اتحاد کو ہے کہ اگر ان کے امیدوار ناکام ہوگئے تو یہ بڑی سبکی کی بات ہوگی اور اس کو صوبے کے مستقبل کے تناظر میں ایک ریفرنڈم یا عوامی سروے کے طور پر لیا جائے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جے یو آئی اور اے این پی کے ووٹرز ماضی قریب کی بعض تلخیوں کے باعث ایکدوسرے کے امیدواروں کو اس طرح ووٹ نہیں دیں گے جس کی لیڈروں کو توقع ہے جبکہ مسلم لیگ ن اس تمام گیم سے لاتعلق دکھائی دے رہی ہے اور یہی حال پیپلزپارٹی کا بھی ہے. اگر ان پارٹیوں نے کارکنوں کو قائل کرکے پولنگ کے دن نکالا تو عمران خان کے لیے جیتنا مشکل ہو جائے گا.
عمران خان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے مخالفین اہم ایشوز پر صوبہ کی سطح پر اب بھی ایک پیج پر نہیں ہیں جسکی سب سے بڑی مثال چھ ماہ گزرنے کے باوجود صوبے میں اتحادی جماعتوں کی جانب سے گورنر کی تعیناتی میں ناکامی ہے جس کے بارے میں اب کہا جانے لگا ہے کہ یہ عہدہ جے یو آئی کو دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے. اس سے قبل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی یہ کوشش رہی کہ گورنر اے این پی سے ہو تاہم مولانا فضل الرحمن صاحب اس پر راضی نہ ہوسکے.
نتائج جو بھی ہوں تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ صوبے میں ایک تاریخی معرکہ ایک ایسے وقت میں سر ہونے جا رہا ہے جبکہ ملک میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہے اور اب بھی ایک عام تاثر یہ ہے کہ خیبر پختون خوا عمران خان کا مضبوط گڑھ اور قلعہ ہے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket