مذاکرات کی ایک اور پیشکش
عقیل یوسفزئی
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے گزشتہ روز پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے جہاں ایک طرف صوبے میں وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی چوری کے خلاف آپریشن روکنے کا حکم جاری کردیا ہے اور ضمنی انتخابات کو مسترد کردیا وہاں انہوں نے ایک انتہائی نازک فیز کے دوران عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم پائیدار امن کے لیے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کیلئے قومی سطح پر ایک لائحہ عمل مرتب کیا جائے تاکہ کوئی نقصان نہ اُٹھانا پڑے۔ وزیر اعلیٰ جس وقت تضادات پر مبنی یہ پریس کررہے تھے صوبائی حکومت کے وہ ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف ان کے ساتھ براجمان تھے جنہوں نے عمران خان کی ہدایات پر گزشتہ حکومت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کئی مہینوں پر مشتمل ایک مذاکراتی عمل چلایا تھا اور اس پریکٹس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ سوات اور وزیرستان پر نہ صرف یہ کہ طالبان پھر سے حملہ آور ہوگئے بلکہ انہوں نے اس عمل سے فوائد حاصل کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کی ری گروپنگ بھی کی۔ بہتر ہوتا کہ اس پریس کانفرنس کے دوران جناب بیرسٹر محمد علی سیف سے اس مذاکراتی عمل کے بارے میں تفصیلات معلوم کی جاتیں۔ جس دن وزیر اعلیٰ اس خواہش کا اظہار کررہے تھے اس دن سیکورٹی فورسز نے انہی کے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں کارروائی کرتے ہوئے 10 عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا جبکہ ایک اور کو شمالی وزیرستان میں نشانہ بنایا گیا۔ اسی روز دوسرا اقدام یہ اٹھایا گیا کہ کسٹمز ڈیپارٹمنٹ نے پشاور سمیت متعدد دیگر علاقوں میں اس ڈیپارٹمنٹ پر ہونے والے حملوں کے تناظر میں اپنے ناکے ختم کرکے نئے ایس او پیز جاری کردیے۔ یہ بہت عجیب بات ہے کہ جس روز وزیر اعلیٰ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کررہے تھے اسی دن اسی پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے ضمنی انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف احتجاج کیا جائے گا جبکہ ان کی پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور جنرل سیکرٹری عمر ایوب خان نے باقاعدہ اعلان کیا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے خلاف جمعہ کے روز ملک گیر سطح پر سخت احتجاج کیا جائے گا ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ پارٹی عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک بار پھر مذاکرات کے اعلان کی بجائے وفاقی حکومت اور اس میں شامل پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کرکے ملک میں موجود کشیدگی کے خاتمے کا راستہ اختیار کرلیتی اور علی امین گنڈاپور کی صوبائی حکومت بجلی چوری کے دفاع کی بجائے صوبے کے حقوق کی حصول کیلئے وفاقی حکومت سے مذاکرات اور رابطہ کاری کا اعلان کرتی ۔ جہاں تک مذاکرات کی پیشکش یا خواہش کا تعلق ہے اس پر دو سوالات اٹھائے جانے چاہئیں ۔ ایک تو یہ کہ کیا اتنے اہم قومی ایشو پر مذاکرات کا مینڈیٹ کسی صوبائی حکومت کو حاصل ہے یا نہیں ؟ دوسرا سوال یہ کہ کیا دوسرا فریق یعنی ٹی ٹی پی مذاکرات چاہتی ہے یا نہیں ؟ ان دونوں سوالات کا جواب واضح انداز میں ” نہیں” میں ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کی پولیس فورس کو 15 ہزار سے زائد نفری کی کمی کا سامنا ہے ۔ اس صوبے پر علی امین گنڈاپور کی پارٹی 2013 سے حکومت کرتی آرہی ہے ۔ اس پارٹی نے اس مسئلے کے حل پر توجہ کیوں نہیں دی؟
جہاں تک بجلی کی رائلٹی کی حصول کے ایشو پر وزیر اعلیٰ کے اس بات کا تعلق ہے کہ وہ اس مسئلے پر کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں تو یہاں بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مرکز میں عمران خان کی قیادت میں ان کی پارٹی کی حکومت قائم تھی تو اس دوران صوبے کو بجلی کی کتنی رائلٹی ملی ؟
ایسے سوالات مزید بھی ہیں جن کا جواب اس پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت کو دینے چاہئیں تاہم اصل صورتحال تو یہ ہے کہ تحریک انصاف ایک بار پھر نہ صرف یہ کہ پاکستان کو احتجاج کے نام پر ایک ایسے وقت میں بحران سے دوچار کرنے کی پرانی پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ پاکستان اعلیٰ سطحی عالمی وفود کی میزبانی کررہا ہے اور یہاں مختلف ممالک کی بہت بڑی سرمایہ کاری آنے لگی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب کے بار بھی یہ پارٹی جنگ زدہ پختونخوا کی اپنی حکومت کو وفاق اور دیگر کے خلاف ایک مورچے کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے جو کہ ایک افسوسناک رویہ ہے ۔