عقیل یوسفزئی
گزشتہ روز ملک کے چاروں صوبوں میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اس کے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا اور پنجاب میں پارٹی کے دعووں اور تجزیہ کاروں کی توقعات کے برعکس کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ 21 میں سے 10 حلقوں پر مسلم لیگ ن کامیاب ہوگئی ہے جبکہ باقی پر متعدد حلقوں میں پیپلز پارٹی اور آذاد امیدوار کامیاب ہوگئے ہیں ۔ خیبرپختونخوا کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی دو دو نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے تاہم یہاں بھی اس کے باوجود اس پارٹی کو 50 فی صد کامیابی بھی حاصل نہیں ہوئی کہ صوبے میں اس پارٹی کی حکومت ہے اور انتظامیہ ہمیشہ برسرِ اقتدار جماعت کے امیدواروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے ۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بھائی نے ان کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر ڈی آئی خان سے کامیابی حاصل کی ہے اور ایک سیٹ پر اسے کوہاٹ سے کامیابی ملی ہے تاہم اس کو قابل ذکر اس لیے قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس بیلٹ میں جے یو آئی جیسی مضبوط پارٹی نے الیکشن سے بائیکاٹ کر رکھا تھا ورنہ صورتحال کافی مختلف ہوتی ۔ وزیر اعلیٰ کے بھائی کی جیت بوجوہ یقینی تھی کہ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کے عہدے پر فائز ہیں ۔
پارٹی کو باجوڑ میں شدید نوعیت کا دھچکا لگا ہے جہاں اس کے دونوں امیدوران پارٹی کے ایک شہید نوجوان رہنما ریحان زیب کے چھوٹے بھائی انور زیب کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ انور زیب نے پارٹی کے ایک سابق ایم این اے اور ایک اور امیدوار کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے بڑی مارجن سے شکست دی جس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ شکست صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کی پالیسیوں پر عدم اعتماد ہے ۔ انور زیب کی کوشش رہی کہ پارٹی ان کو ٹکٹ جاری کرے کیونکہ ان کے بھائی نہ صرف اس پارٹی کے دیرینہ کارکن تھے بلکہ ان کو آزاد حیثیت سے 8 فروری کے انتخابات میں اس لیے کھڑا ہونا پڑا تھا کہ پارٹی نے بعض بااثر امیدواروں کے باعث انہیں ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ ریحان زیب کو شہید کردیا گیا تو توقع کی جارہی تھی کہ اس کی قربانی اور مقبولیت کو سامنے رکھ کر ان کے بھائی کو ٹکٹ دیا جائے گا مگر ایسا نہیں کیا گیا اور اس کا نتیجہ تحریک انصاف کے دونوں بااثر امیدواروں کی بدترین شکست کی صورت میں نکل آیا ۔ درمیان میں کوشش کی گئی کہ ان کو پیسے دیکر بااثر امیدواروں کے مقابلے سے دستبردار کرایا جائے مگر انہوں نے اس سے انکار کیا ۔ یہ طرز عمل پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کو بہت منفی لگا اور وہ بغاوت پر آمادہ ہوگئے ۔ دوسری جانب عام لوگوں نے بھی ووٹ ڈال کر تحریک انصاف کو تاریخی شکست سے دوچار کردیا۔
ایسی ہی صورتحال لاہور سمیت پنجاب کے ان علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں تحریک انصاف خود کو مقبول قرار دیتی رہی۔
لگ یہ رہا ہے کہ پارٹی بوجوہ اپنی گرفت اور مقبولیت کھوتی جارہی ہے اور پارٹی کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے ۔