عقیل یوسفزئی
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی قائدین کے بعض بیانات ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ اس پارٹی کے لئے بھی نقصان کا سبب بنتے آرہے ہیں اور لگ یہ رہا ہے کہ پارٹی میں پالیسی میکنگ کے حوالے سے نہ صرف ابہام موجود ہے بلکہ اسے بحیثیت ایک پارٹی تنظیمی بحران کا بھی سامنا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ پارٹی کو کون چلا رہے ہیں اور اس کے کس لیڈر کی بات یا بیان کو پالیسی سٹیٹمنٹ سمجھا جائے۔ ہر پارٹی کا ایک سربراہ ہوتا ہے اور ایک ترجمان جو کہ پالیسی بیان دے رہے ہوتے ہیں مگر یہاں صورتحال بلکل الٹ ہے اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس کا مینڈیٹ کیا ہے اور کون کس کو جوابدہ ہے۔ حال ہی میں پارٹی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے ایک بیان داغ دیا کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں سعودی عرب کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا گیا جب سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کے دورے پر تھا اور دونوں ممالک کی مزید قربت اور ریکارڈ سرمایہ کاری کی کوشش کی جارہی تھی۔ دوسرے دن تحریک انصاف کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ شیر افضل مروت پارٹی کے ترجمان نہیں ہیں اور یہ کہ یہ ان کی ذاتی آرا ہوسکتی ہے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ یہ پارٹی پولیٹکس پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بعض اہم ممالک کو ملکی سیاست میں گھسیٹ رہی ہے۔ اس سے قبل یہ پارٹی امریکہ کو بھی بھی ایسے سنگین الزامات کا نشانہ بناتی رہی ہے ۔ سعودی عرب کو ایک ایسے موقع پر اس نوعیت کے الزام کا نشانہ بنانے کی یہ کوشش کو محض ایک اتفاق نہیں کہا جاسکتا ۔ اگر اس الزام یا بیان کو پارٹی قیادت کی حمایت حاصل نہیں ہے تو شیر افضل مروت کے خلاف پارٹی ڈسپلن کے تحت کارروائی کیوں عمل میں نہیں لائی گئی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف جب برسر اقتدار تھی تو اس پارٹی نے نہ صرف امریکہ اور چین جیسے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کیے بلکہ سعودی عرب ، قطر اور بعض دیگر ریاستوں کے ساتھ بھی معاملات خراب کیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آگر ایک طرف سی پیک سمیت متعدد دیگر پراجیکٹس بری طرح متاثر ہوگئے بلکہ سعودی بلاک کے ساتھ بھی دوریاں پیدا ہوگئیں اور رہی سہی کسر توشہ خانہ اسکینڈل نے پوری کردی جس کے دوران ان تحائف کی بھی بولیاں لگائی گئیں جو کہ محمد بن سلمان نے ذاتی طور پر عمران خان کو دے رکھے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تحریک انصاف موجودہ حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے خلاف مورچہ زن ہے اور دوسری طرف سے بھی اس پارٹی کو شدید نوعیت کے دباؤ کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تاہم اس کشیدگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان کے قومی مفادات اور سفارتی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا رویہ اختیار کیا جائے اور بعض حساس معاملات کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بھینٹ چڑھایا جائے۔ اس قسم کے رویے کو ریاستی سطح پر سختی کے ساتھ روکنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس سے ملک کے اجتماعی مفادات کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔