Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, May 5, 2024

عمران خان کی قلابازیاں اور جارحانہ عزائم

اے وسیم خٹک
نئی بننے والی حکومت کو سابقہ حکومت کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ اس کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما امپورٹڈ حکومت گردانتی ہے اور اس حکومت کو نامنظور کرتے ہوئے اُن کے رہنما اسے سازش اور مداخلت کی کارستانی بتاتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ چور حکومت کے ساتھ کسی تیسری قوت نے ملکر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کیا ہے۔ جس میں ایک ملک امریکہ بھی شامل ہے ان کا موقف ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہو جس کو وہ ایک سفارتی خط کو بنیاد بنا کر واویلا مچاتے ہیں جس کی حقیقت ابھی تک آشکارا نہیں ہوئی۔ نئی حکومت بننے سے پہلے حالات اس نہج تک پہنچ گئے تھے کہ آئین کو توڑا گیا اور ارٹیکل چھ کو پاؤں تلے روندا گیا۔ تب حکومت کی مشینری کو حرکت میں آنا ہی پڑا۔ جب عدالت رات کو کھول دی گئی کیونکہ جو بساط بچھائی گئی تھی۔اس کا نتیجہ برا ہی نہیں بہت برا نکلنا تھا ۔ اور پھر وقت نے دیکھا کہ آئین کو توڑنے والے آئین شکن عناصر حکومت سے دور کردیئے گئےاور عمران خان سے کرسی چھن گئی۔ اُسی دن سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں خاص کر سابق وزیراعظم عمران کو بچھو کھا گیا اُس نے کرسی چھیننے کو اپنی ہتک اور انا کا مسئلہ بنا لیا اور امپورٹڈ حکومت نامنظور کے ٹرینڈ چلانے شروع کردیئے۔ اپنے نوجوانوں کو احتجاج کی کال دینی شروع کردی ۔

ملک کو بلاک کرنے اور نوجوانوں کو اشتعال دلانے کے ساتھ ساتھ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو فعال بنا کر پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا جس میں اُس کے نشانے پر گیارہ سیاسی جماعتوں کے قائدین، نئی حکومت، امریکہ اور وہ ادارے آگئے جن سے ملک کی سالمیت قائم ہے۔ اپنی سوشل میڈیا ٹیم جو کہ 2013 کی نسبت اب بہت زیادہ فعال ہوگئی ہےکیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سوشل میڈیا کی طاقت کو جان لیا تھا اور عمران خان نوجوانوں کے نبض کو جانتا ہے اسے معلوم ہے کہ نوجوان ہی وہ طبقہ ہے جس کو کنٹرول کرکے اپنا مقصد نکالا جاسکتا ہے اور نوجوان ہی پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ اس اسٹیک پر عمران خان نے کافی محنت کی اور آئی ٹی کی تربیت سمیت سوشل میڈیا کی تربیت دی گئی جس کے لئے کافی زیادہ رقم مختص کی گئی۔ آج اسی کو ہتھیار بنا کر پروپینگنڈہ کیا جارہا ہے اور ساتھ میں عوام کے پاس جاکر وہی پرانی باتیں دہرائی جارہی ہیں جو پہلے کی جاتی تھی۔

پاکستان سے نیا پاکستان تک کا سفر ختم ہوگیا اب عوام کو ایک نئے جھانسے میں ڈال کر آزاد پاکستان کا راگ الاپا جارہاہے کہ یہ حکومت غلام حکومت ہے کیونکہ یہ باہر کے امداد پر چلتا ہے اور اس کی ڈوریں باہر سے ہلائی جاتی ہیں۔ یہاں عمران خان وہی مذہب کارڈ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس کے سارے لیڈران بھی مذہب کا سہارا لیتے ہیں اور غلط انٹرپریٹیشن کرکے توہین مذہب کے بھی مرتکب ہورہے ہیں مگر کوئی پوچھنےوالا نہیں۔

اگر دیکھا جائے تو موجودہ وقت میں ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے جس کو بیرونی عناصر کی جانب سے خطرات لاحق ہیں وہاں سابقہ حکمران پارٹی کی جانب سے بھی خطرات ہیں کیونکہ جس انداز میں اداروں کےخلاف آواز اٹھائی جارہی ہے یہ آواز منظور پشتین بھی اٹھا رہا تھا جس کے خلاف کاروائیاں کی گئی اور ان کے رہنماؤں کو قید کیا گیا ۔ اب وہی کچھ عمران خان کر رہا ہے۔

جنرل افتخار کی جانب سے بار بار تنبیہ کی جاتی ہے کہ فوج کاسیاست سے کوئی لینا دینا نہیں مگر عمران خان کسی نہ کسی جلسے میں اشارے دے دیتا ہے جس کو ایک ان پڑھ بندہ بھی سمجھ جاتا ہے اور پھر ایک بری عادت کہ وہ اپنی بات سے مکر بھی جاتا ہے اور اس کے ورکرز عمران خان کی ہر بات کو من وعن تسلیم بھی کر لیتے ہیں۔

جتنی نفرت اس ایک مہینے میں فوج کے خلاف پیدا کی گئی ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اب جب آئینی طور پر وہ حکومت سے دور ہوگئے ہیں تو اب وہ اداروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جس کو اندورنی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ افغانستان میں ابھی حالات اس نہج پر نہیں کہ اسے امن سے تعبیر کیا جائے۔ گزشتہ دو مہینوں میں تحریک طالبان کی جانب سے حملے اس بات کی غماز ہیں کہ وہ قوتیں پھر سر ابھار رہی ہیں جن کی سرکوبی کی گئی تھی اور جن کے خلاف گھیرا تنگ کیا گیا تھا تو دوسری جانب ففتھ جنریشن وار کا بھی مقابلہ کیا جارہا ہے۔

اس سخت وقت میں جب عوام مہنگائی اور پچھلی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث سری لنکا کے حال کے نزدیک پہنچ گیا ہے “اب نکلو آزاد پاکستان کی خاطر” کے نعرے ملک کو کھوکھلا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آزادی مارچ سے کوئی اچھا رزلٹ نہیں نکلے گا۔ البتہ اس سے مزید بگاڑ آسکتا ہے کیونکہ جس آزادی کا نعرہ لگایا جارہا ہے اس کے بارے میں بھی سب جانتے ہیں کہ اب خان کا مقابلہ حکومت یا امریکہ سے نہیں بلکہ خان کے نشانے پر کوئی اور ہے جو اس کے لئے شاید تابوت میں آخری کیل ثابت ہو۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket