Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, April 29, 2024

مجرم کی پرائیویسی

وصال محمد خان
مجرم کی پرائیویسی
گزشتہ کچھ عرصہ سے وطن عزیزمیں ”آڈیولیکس“ کاسلسلہ دوام پذیر ہے اب تک سیاستدانوں، بیوروکریٹس، ججزاورانکی فیملیز کی کال ریکارڈ نگزسامنے آچکی ہیں وفاقی حکومت نے ان آڈیولیکس کی تحقیقات کیلئے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جسے سپریم کورٹ کے مشہورِزمانہ پانچ رکنی بنچ نے کام سے روک دیا۔ جسٹس فائزعیسیٰ کامؤقف ہے کہ حکومت کے پاس کمیشن قائم کرنے کااختیارموجودہے جبکہ ہم آئین اوراپنے حلف کے تحت حکومتی احکامات پرعملدرآمد کے پابند ہیں سپریم کورٹ کے بعد اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکے بیٹے کوریلیف دیا ہے۔ اکثرعدالتی ریمارکس میں سوال اٹھایاجاتاہے کہ کالزکون ریکارڈ کررہاہے اورکیایہ پرائیویسی میں مداخلت نہیں؟ مجھ جیسے کج فہم کی سمجھ میں تویہی آرہاہے کہ کسی شہری کی کال ریکارڈکرنا یقیناًپرائیویسی میں مداخلت ہے مگر اس میں سامنے آنے والی باتیں بھی جرم کے زمرے میں آتی ہیں پرائیویسی تویہ ہے کہ کسی کے گھرمیں بغیروارنٹ داخل نہ ہواجائے،کسی گھرکی دیواریں نہ پھلانگی جائیں، چادراورچاردیواری کا تقدس پامال نہ کیاجائے لیکن یہ سب کچھ تویہاں دھڑلے سے ہورہا ہے آئین،قانون اوراخلاقیات کی خلاف ورزی توہمارے جیسے تیسری دنیاکے تیسرے درجے شہریوں کیلئے انہونی بات نہیں کوئی شہری کسی جرم میں ملوث ہوتاہے توپولیس وغیرہ پہلے یہ نہیں دیکھتی کہ جرم کی اطلاع قانونی ہے یاغیرقانی۔ جہاں تک ویڈیویاآڈیولیکس کی بات ہے توان میں کسی بیوروکریٹ،سیاستدان،جج یاان سے متعلق لوگوں سے جڑی باتیں جرم کے زمرے میں آتی ہیں،ان میں قانون شکنی، سازش اور ضمیرفروشی سے متعلق باتیں موجودہیں کسی بھی لیکس میں کوئی بھی اعلیٰ حضرت یامحترمہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے،تہجدپڑھتے ہوئے یاقرآن کی تلاوت کرتے ہوئے نظرنہیں آئے بلکہ کہیں خریدوفروخت کی باتیں ہوتی ہیں،کہیں ٹکٹ کی قیمت طے کی جارہی ہے، کہیں بیہودہ،اخلاق باختہ گفتگواورحرکات کی جارہی ہیں،کہیں عدالتی فیصلوں اورججوں پراثراندازی کی باتیں ہورہی ہیں،کہیں کسی کواقتدار سے محرومی کی سازشیں ہیں توکہیں کسی کواقتدارکے سنگھاسن پربٹھانے کی گفتگوسننے کومل رہی ہے۔اکثر لیکس کی شفاف تحقیقات ہوں توانکی تہہ سے بڑے اورناقابل معافی جرائم برآمدہوسکتے ہیں پرائیویسی میں مداخلت تواس سے کمترجرم ہے کوئی پرائیویسی اگرجرم کیلئے استعمال ہوتی ہے توقانو ن نافذکرنے والے اداروں کواس پرہاتھ ڈالنے کی اجازت ہونی چاہئے اگرقانون میں کال ٹیپ کرنامنع ہے توکال کوجرم کیلئے استعمال کر نے کی اجازت بھی نہیں ہونی چاہئے پرائیویسی ہر شہری کاحق ہے لیکن اگرشہری اس حق کاغلط استعمال کررہاہوتواس سے بازپرس نہیں ہوگی؟ کسی چاردیواری کے اندرملک کے خلاف سازش ہورہی ہو،کسی تہہ خانے یا گھرمیں مطلوب مجرم یاملک دشمن پناہ گزیں ہویاکوئی شخص فون پرکسی کوجرم کیلئے ہدایات دے رہا ہو توکیاپہلے عدالت میں رٹ دائرکرناہو گی اس بات کی کیا ضمانت کہ عدالت سے اجازت ملنے تک مجرم فرارنہ ہوچکاہو،یاملک دشمن ایجنٹ اپناٹھکانہ تبدیل نہ کرچکاہو؟عدالتوں کولیکس کون کررہاہے اورپرائیویسی سے متعلق سوالات اٹھانے چاہئیں مگرساتھ لیکس کے ذریعے سرزدہونے والے جرم پربھی توجہ درکارہے قرین ازفہم تویہ ہے کہ عدالت لیکس کی اصلی یاجعلی ہونے کی تحقیقات کروائے اگریہ جعلی ثابت ہوں تو اسکے خلاف حکم امتناع جاری کیاجائے لیکن اگریہ اصلی ثابت ہوں اور کی گئی گفتگوقانون شکنی کے زمرے میں آتی ہو توضروری کارروائی کے احکامات جاری کئے جائیں جسٹس ثاقب نثارکے بیٹے کی آڈیوسے منکشف ہے کہ تحریک انصاف کے ٹکٹوں پربارگیننگ ہورہی ہے ہائیکورٹ کو تحقیقات کاحکم جاری کرناچاہئے تھا، اگرآڈیواصلی ہے توملوث کرداروں کو سزادینے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں پرائیویسی میں مداخلت کا کوردیاجائے۔ جسم فروشی،شراب اورجوئے کے اڈے بھی توچاردیواری کے اندرچلتے ہیں کیاپرائیو یسی کے احترام میں قانون نافذکرنے والے ادارے کارروائی کے مجاز نہیں یاانہیں ایسے مکانوں بنگلوں،یافلیٹوں پرچھاپے کااختیار نہیں؟ کوئی ملزم ٹیلیفون کے ذریعے کسی کے قتل کی منصوبہ بندی کررہاہو، کہیں بم دھماکے کے احکامات دے رہاہو، تخریب کاری کامنصوبہ بنارہاہو توکیا اسے پرائیویسی میں مداخلت کافائدہ دیکرچھوڑا جائیگا؟دنیابھرمیں مجرم کی کوئی پرائیویسی نہیں ہوتی،مجرم کسی رعایت کامستحق نہیں ہوتا اورجوقوانین شریف شہریوں کی حفاظت کیلئے معرض وجودمیں آتے ہیں یالائے جاتے ہیں ان قوانین کاکورکسی مجرم کوحاصل کرنیکی اجازت نہیں ہوتی۔ حکومت نے کیاہی بہترین فیصلہ کیاتھاکہ پہلے ان آڈیولیکس کی اصلی یاجعلی ہونے کی تحقیقات ہوں اس کیلئے سپریم کورٹ کے سینئرترین جج جسٹس فائزعیسیٰ اوردوہائیکورٹس کے چیف جسٹسزپرمشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیاگیا سپریم کورٹ کے مشہورِزمانہ بنچ نے اہم نوعیت کے احکامات کوکالعدم قراردیا۔ سپریم کورٹ حکومت کے ہراقدام کومستردکرکے قوم کوکیاپیغام دیناچاہتی ہے؟ یہ بہترنہ ہوتاکہ جوڈیشل کمیشن کوکام کرنے دیاجاتابلکہ اسے معاونت فراہم کی جاتی تاکہ آڈیولیکس کااونٹ کسی کروٹ بیٹھتا۔روزنت نئی لیکس آرہی ہیں ایک دوروزمیڈیاپرچرچارہتاہے ایک اورآڈیوآنے پرپرانی آڈیووقت کے گردمیں دب جاتی ہے۔ حالانکہ ان میں ایسی آڈیوکالزموجودہیں جوسنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔کچھ آڈیوزعدلیہ پرسوالیہ نشانات ثبت کرتی ہیں،کچھ سیاست کوبدعنوانی کامیدان بتارہی ہیں توکچھ قومی سلامتی سے بھی تعلق رکھتی ہیں عام آدمی کی سمجھ میں تویہی آرہا ہے کہ آڈیولیکس کے ذریعے عدالت کے سامنے ایک جرم کی ابتدائی اطلاع آ چکی ہے عدالت کوپرکھنے کی ضرورت ہے کہ اطلاع اصلی ہے یاجعلی؟اگراصلی ہے تومجرم سے بازپرس ضروری ہے جرم کے مرتکب فردکوسزا دینے کی ضرورت ہے اطلاع یاثبوت کاذریعہ توثانوی حیثیت کی حامل ہے۔ کوئی شخص قتل کرکے لاش گھرکے صحن میں دبارہا ہواسکاہمسایہ پولیس کورپورٹ کرے توکیاپولیس قاتل کوپکڑکرلاش برآمدکرے گی یاہمسائے کوپکڑکرپابندسلاسل کرے گی کہ اس نے قاتل کی پرائیویسی میں مداخلت کیوں کی؟ مجرم کی پرائیویسی ضرورمتاثرہوئی ہے مگراسکے جرم کارازبھی فاش ہوچکاہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket