Repatriation of students from Kyrgyzstan

کرغزستان سے طلبا کی وطن واپسی

کرغستان میں ہنگامہ آرائی کا شکار ہونے والے 140 پاکستانی طلبا لاہور پہنچ گئے۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے لاہور ائیرپورٹ پر طلبہ کو ریسیو کیا۔ محسن نقوی نے کہا کہ بچوں کا فیڈبیک اچھا نہیں ہے، وزیراعظم نے اس واقعہ کے فوری بعد پاکستانی طلبہ کے تحفظ کے لئے تیزی سے اقدامات کئے۔کرغزستان سے آنے والی پرواز 140 پاکستانی طلبہ کو لے کر لاہور ائیرپورٹ پہنچی تو وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے طلبہ کو ریسیو کیا۔۔ وفاقی وزیر داخلہ نے بحفاظت وطن واپس آنے والے طلبہ سے ملاقات میں خیریت دریافت کی اور بشکیک میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ کے بارے معلومات لیں اور مسائل پوچھے۔

محسن نقوی نے کہا کہ کرغزستان میں پاکستانی طلبہ قوم کے بچے ہیں، وزیراعظم نے اس واقعہ کے فوری بعد پاکستانی طلبہ کے تحفظ کے لئے تیزی سے اقدامات کئے۔ ہماری سب سے پہلی ترجیح پاکستانی طلبہ کی بحفاظت وطن واپسی ہے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو ٹرانسپورٹ کی سہولت دی جائے گی، کرغزستان میں موجود دیگر طلبہ کو بھی پاکستان واپس لایا جائے گا۔۔ محسن نقوی نے طلبا کو بتایا کہ وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر وفاقی وزراء اسحاق ڈار اور امیر مقام بھی آج کرغزستان جائیں گے اور آج آنے والی پروازوں کے ذریعے مزید طلبہ کو وطن واپس لائیں گے۔

کرغزستان سے پاکستانی طلبا کی وطن واپسی، پہلی پرواز لاہور ایئرپورٹ پہنچ گئی۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک سے پاکستانی طلبہ وطن واپسی کا عمل شروع ہوگیا، پہلی پرواز آدھے گھنٹے کی تاخیر سے 11 بجے لاہور ایئر پورٹ پہنچ گی۔ابتدائی تفیصلات کے مطابق پہلی پرواز میں 30 پاکستانی طلبہ ہیں جو ہاسٹل سے باآسانی ایئرپورٹ پہنچ گئے جبکہ فلائٹ میں جگہ ہونے کے باعث انہیں باآسانی ٹکٹس مل گئے۔پرواز کے اے 571 لاہور ایئرپورٹ پر ساڑھے 10 بجے لینڈ کرنا تھی لیکن اب آدھے گھنٹے کی تاخیر سے لینڈ کرے گی۔ علاوہ ازیں محسن نقوی لاہور ائیرپورٹ پر طلبہ کو ریسیو کریں گے۔ ایئر پورٹ منیجر نے بتایا کہ مسافروں کیلئے بین الاقوامی آمد لاونج میں الگ کاونٹرز بنا دیے گئے ہیں اور طلبا کی تیز ترین امیگریشن کیلئے ایف آئی اے کو بھی احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔واضح رہے کہ کرغزستان میں پاکستانی طلبہ پر حملوں اورانہیں ہراساں کیے جانے سے متعلق ویڈیوز مںظرعام پر آنے کے بعد پاکستان میں موجود طلبہ کے والدین نے اپنے بچوں کی بحفاطت واپسی کا مطالبہ شروع کردیا تھا۔

کرغزستان میں وہاڑی سے تعلق رکھنے والے میڈیکل کے طالب علم عثمان شمشاد اوررضوان بشارت بھی ہاسٹلز میں محصور ہوگئے۔ طلبا نے ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی لوگ غیر ملکی طلبا پر ہاسٹل اور فلیٹس میں گھس کر تشدد کر رہے ہیں جبکہ میڈیکل کی طالبات کو ہراساں کیا جارہا ہے۔بعدازاں وزیراعظم شہباز شریف نے کرغزستان کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی سفیر کو طلبہ کی ہر ممکن مدد کی ہدایت کی تھی۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ جو طلبہ واپس آنا چاہیں، حکومتی خرچ پر فوری واپسی یقینی بنائیں گے اور طلبہ اور والدین کے مابین روابط کیلئے سفارتخانہ ہر قسم کی معاونت فراہم کرے۔

Wisal Muhammad Khan

پگڑیوں کا فٹبال

وصال محمد خان
وطن عزیزکی فضاپر ہمہ وقت ارتعاش کی کیفیت طاری رہنامعمول بن چکاہے کوئی دن پرسکون گزرتاہے تویہ کسی بڑی آفت کاپیش خیمہ ثابت ہوتاہے۔ دنیاکے دیگرخطوں اورممالک میں الیکشن کے دوران گہماگہمی رہتی ہے، جلسے جلوس منعقدہوتے ہیں اورایکدوسرے کے خلاف بیانات جاری ہوتے ہیں مگرہمارے ہاں الیکشن کے بعد اگلے پانچ سال تک بھی انتخابی ماحول برقراررہتا ہے. سیاسی بیان بازی پرکیاموقوف اب عدلیہ کے خلاف بیان بازی کی ایک نئی روایت نے جنم لیا ہے۔ اس سلسلے میں عدلیہ کا کرداربھی قابل رشک قرارنہیں دیاجاسکتا مگراسے سیاسی بیان بازیوں کانشانہ بنانابھی کسی طورمستحسن نہیں۔ عدلیہ ریاست کے چارستونوں میں سے ایک ہے اوربرطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کاقول توسب کوازبرہے کہ جس ملک میں انصاف ہوتاہے اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ مگربدقسمتی سے پاکستان کاریکارڈ اس حوالے سے قابل رشک نہیں اسلئے توہماری عدلیہ دنیامیں ایک سوچالیسیویں نمبرپرہے ملک کے چونکہ تمام شعبے تباہ حالی کا شکارہیں جس سے عدلیہ بھی محفوظ نہیں عدلیہ سے متعلق چند افرادنے ماضی اورحال میں ایسے فیصلے دئے ہیں جن سے متاثرہ افرادیاتوزمین کے چھ گزاندر دفن ہوگئے یاپھرزمین سے چھ گزاوپرلٹک گئے ۔عدلیہ کے فیصلوں پرمتاثرہ فریق اکثروبیشترتنقیدکرتے رہتے ہیں مگر حالیہ عرصے میں کچھ ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جوچاروں جانب سے تنقیدکی زدمیں ہیں خصوساًتحریک انصاف اوراسکے بانی کے حوالے سے 9مئی واقعات پرجوتھوک کے حساب سے ایک ایک فردکودو،دو،درجن مقدمات میں ضمانتیں دی گئیں یاپھرماضی قریب میں گڈٹوسی یو وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ان پرمخالف فریقوں کی جانب سے تنقیدنوشتہ دیوارتھی ۔اسلام آبادہائیکورٹ کے چھ ججزکی جانب سے سپریم کورٹ کوانکے امورمیں مداخلت کے حوالے سے جوخط لکھاگیااسکے بعدعدلیہ اورمقتدرحلقوں میں ٹھن گئی ہے اسلام آبادہائیکورٹ کے جج بابرستارجوکہ مستقل جج بھی نہیں انکی جانب سے پی ٹی آئی کے حق میں کچھ ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جن پرمخالف فریق کاسیخ پاہوناقدر تی امرہے۔ اوپرسے انہوں نے سپریم کورٹ کوخط لکھ کرایک نیاایشوچھیڑدیااس خط کاجونتیجہ برآمدہواہے یہی متوقع تھااول تویہ خط لکھناہی غلط سمجھاجارہا ہے اگرخط لکھابھی گیاتوسپریم کورٹ کواس پرازخودنوٹس لینے کی بجائے یہ معاملہ حکومت کوسونپناچاہئے تھااوراگرہائیکورٹ کے چھ ججزکوکسی مداخلت کاسامناتھاتووہ حکومت سے ہی رابطہ کرسکتے تھے مگرانہوں نے معقول طرزعمل اپنانے کی بجائے یہ خط میڈیاکوجاری کردیاخط شائد سپریم کورٹ یاسپریم جوڈیشل کونسل بعدمیں پہنچامگرمیڈیامیں اس پرتبصرے پہلے ہی شروع ہوگئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر اعظم کے درمیان یک رکنی کمیشن بنانے پراتفاق ہوامگرمیڈیامیں ایک سیاسی جماعت کے شورمچانے اورازخودنوٹس کے مطا لبات سے متاثر ہوکرچیف جسٹس اوروزیراعظم کے درمیان ہونے والے فیصلے کوبالائے طاق رکھ کرسوموٹولیاگیااسکے بعدیہ شورمچایاگیاکہ کیس کی سماعت فل کورٹ کرے اس مطالبے کوبھی مستردنہیں کیاگیا۔عدلیہ کوسیاست میں مداخلت یاکسی فریق کیلئے جانبداری کامظاہرہ نہیں کرناچاہئے، کسی کے پروپیگنڈے سے متاثرنہیں ہوناچاہئے اورکسی کے دباؤمیں ٓنے سے اجتناب برتناچاہئے ۔مگرحالیہ عرصے میں عدلیہ کی جانب سے یہ بنیادی ضرورت پوری نہیں کی گئی بلکہ بعض ججزتوببانگ دہل ایک سیاسی جماعت کوفیورکرتے رہے حتیٰ کہ یہ ججزاعلیٰ مناصب پربھی فائزرہے کسی نے اپنے منصب سے ناجائزفوائدسمیٹ کردولت بنائی ،کسی کے بیٹے پر پیسے بنانے اوروالدکے منصب سے ناجائزفائدہ اٹھانے کے الزامات سامنے آئے، کسی جج کومحسوس ہواکہ وہ اپنی صفائی پیش کرنے میں ناکام رہینگے توجوابدہی کی بجائے استعفیٰ دیکرمحفوظ راستہ اپنایا،کسی نے چیف جسٹس بننے کی بجائے استعفیٰ کوترجیح دی اوراستعفیٰ دیکرانکے گناہ دھل گئے ۔شوکت عزیز صدیقی کے خلاف فیصلہ دینے والے اوران کاکیرئیرتباہ کرنے والے بھی جج تھے اورانہیں بغیر خدمت انجام دئے پنشن کاحقداربھی ججزنے ہی ٹھہرادیااگرماضی میں انہیں ججزنے مس کنڈکٹ کامرتکب قراردیکرملازمت سے برخاست کیاتھاتواس میں قوم وملک کاکیاقصورکہ انہیں ادا ئیگیاں قومی خزانے سے ہوں اورانہیں وہ تنخواہ بھی اداکی جائے جس کے عوض انہوں نے خدمات ہی انجام نہیں دیں۔اخلاقی طورپریہ ادائیگیاں ان ججزکے ذاتی اکاؤنٹس سے ہونی چاہئے جنہوں نے انہیں غلط طورپرمس کنڈکٹ کامرتکب قراردیاتھا۔حال ہی میں ایک جج پردہری شہریت کے حوالے سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں انہیں اعلیٰ ظرفی کامظاہرہ کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت اسکے بیانئے یاپروپیگنڈے کاشکارہونے کی بجائے دہری شہریت ترک کردینی چاہئے ۔خودپرلگے سیاسی چھاپ کامداواکرناچاہئے اورذمہ دارانہ طرزعمل اپناناچاہئے۔اگروہ ایسانہیں کرتے تولوگ تنقیدبھی کریں گے ،انگلیاں بھی اٹھیں گی اورانہیں سیاسی بیان بازیوں کانشانہ بھی بنایاجائیگا۔ سیاسی بیان بازوں کے چنگل سے نکل کرججزکواپنے کوڈآف کنڈکٹ پرعمل پیرارہناچاہئے ،کسی سیاسی راہنماسے متاثرنہیں ہوناچاہئے اورانکے فیصلوں سے یہ تاثرنہیں ابھرنا چاہئے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یاراہنماسے متاثرہیں۔سیاست میں چونکہ پگڑیاں اچھالنامعمول بن چکاہے اسلئے سیاستدانوں نے عدلیہ کے حوالے سے بھی پگڑیوں سے فٹ بال وغیرہ کھیلنے کی باتیں کیں یہ ایک نارواطرزعمل ہے اسکی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے ۔کسی کے بارے میں کچھ بھی کہنے ،دھمکانے یاکوئی بھی لغوالزام لگانے کاسلسلہ اب بندہوناچاہئے ۔اسی طرح کی گفتگوپی ٹی آئی ترجمان اورراہنما بھی کر چکے ہیں اسلام آبادہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس کے بارے میں ٹاؤٹ جیسے الفاظ استعمال ہوچکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کویاتو اس معاملے پرمعافی تلافی اورصلہ رحمی سے کام لیکردیگرضروری امورپرتوجہ مرکوزرکھنی چاہئے یاپھرماضی قریب میں اس سے بدترطرزگفتگوکابھی محاسبہ کرناچاہئے ۔زیادہ بہترتویہ ہوتاکہ ججز زبردستی عزت کروانے کی بجائے اپنے طرزعمل سے خودکوتکریم کے قابل بنادیتے یہاں ہردوسر ی زبان توہین عدالت کی مرتکب ہورہی ہے ۔نظام انصاف میں خامیوں اوردیگران گنت عوامل کے پیش نظرعدلیہ کاوقارخاصامجروح ہوا ہے فوج کے بعدعدلیہ کوبھی سیاست زدہ کرنیکی کوششیں ہورہی ہیں۔جوکسی طوردرست طرزعمل نہیں۔ سیاستدان عدلیہ کوسیاست میں ملوث نہ کریں اورعدلیہ خودسے سیاست میں ملوث نہ ہو۔سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ پگڑیاں بہت اچھالی گئیں۔ممبرپارلیمنٹ کوذمہ دارانہ طرزگفتگوزیب دیتی ہے بازاری گفتگوسے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے ۔

Day of mourning for the death of the Iranian president, the national flag flies

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 2021ء سے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر تھے

ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہونے والے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 2021ء سے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر تھے۔ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی 1960ء میں ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے ، ان کے والد ایک عالم تھے اور ان کے والد کی وفات اس وقت ہوئی جب ابراہیم رئیسی 5 سال کے تھے۔ ایران میں 19 جون 2021ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ابراہیم رئیسی نے کامیابی حاصل کی تھی اور انہوں نے ایران کے آٹھویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔

عدالتی نظام میں کئی عہدوں پر کام کیا. 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے ایران کے عدالتی نظام میں کئی عہدوں پر کام کیا ہے۔ 1980ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی تو وہ کرج کے پراسیکیوٹر جنرل بنے تھے بعد ازاں وہ ہمدان کے پراسیکیوٹر بھی مقرر ہوئے اور دونوں عہدوں پر ایک ساتھ خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی 1985ء میں تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کے طور پر تعینات ہوئے اور ایران کے دارالحکومت چلے گئے۔

ڈیتھ کمیٹی کے نام سے مشہور ٹربیونلز کا حصہ رہے، 1988ء میں ڈپٹی پراسیکیوٹر کے عہدے پر رہتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے ان 4 ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو ان خفیہ ٹربیونلز کا حصہ تھے جو کہ ڈیتھ کمیٹی کے نام سے مشہور تھے۔ آیت اللّٰہ علی خامنہ ای کے نئے سپریم لیڈر منتخب ہونے کے بعد ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کو نئے چیف جسٹس محمد یزدی نے تہران کا پراسیکیوٹر مقرر کیا اور وہ 1989ء سے 1994ء تک اس عہدے پر فائز رہے جبکہ 1994ء میں انہیں جنرل انسپکشن آفس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے 2004ء سے 2014ء تک بطور ڈپٹی چیف جسٹس فرائض انجام دیے جبکہ 2014ء سے 2016ء تک ایران کے پراسیکیوٹر جنرل رہے۔

2017ء میں ایران میں ہونے والے انتخابات میں ڈاکٹر ابراہیم رئیسی صدر کے امیدوار بن کر سامنے آئے تاہم اس الیکشن میں اس وقت کے صدر حسن روحانی نے انہیں بھاری اکثریت سے شکست دے کر دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی۔ دوسری مرتبہ 2021ء میں وہ 62.9 فیصد ووٹوں سے ایران کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے، اقتدار کے ایک سال بعد ہی ابراہیم رئیسی کی حکومت کو 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ خارجہ پالیسی میں ابراہیم رئیسی علاقائی خودمختاری کے حامی مانے جاتے تھے، امریکی افواج کے انخلاء کے بعد انہوں نے افغانستان میں استحکام کی حمایت کی اور کہا کہ افغان سرحد کے اطراف داعش جیسے کسی بھی دہشت گرد گروپ کو پیر جمانے نہیں دیا جائے گا۔
ابراہیم رئیسی نے شام کے ساتھ اسٹریٹجک روابط مستحکم کیے، یمن میں سعودی ناکہ بندی کی شدید مخالفت کی، یوکرین جنگ میں روس کی حمایت کا اعلان کیا، 2023ء کے دورہ چین میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے 20 معاہدے کیے، اور کچھ ہی دن بعد ابراہیم رئیسی کی قیادت میں ایران اور سعودی عرب نے 2016ء سے منقطع سفارتی تعلقات بحال کر لیے۔ اُنہوں نے غزہ جنگ میں اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی اور کہا کہ امریکا کی مدد سے اسرائیل، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

پچھلے مہینے اپریل میں ہی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا 3 روزہ دورہ کیا جس میں دونوں ملکوں نے باہمی تجارت 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عہد کیا۔

Joint jirga of Pakistan and Afghan leaders, agreement on ceasefire on the border

پاکستان اور افغان رہنماؤں کا مشترکہ جرگہ، سرحد پر فائر بندی پر اتفاق

 قبائلی ضلع کرم اور افغانستان کے سرحدی صوبہ پکتیکا کے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل روایتی جرگہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کو باہمی بات چیت سے حل کرے گا۔مشترکہ جرگے کی کاروائی لگ بھگ دو گھنٹے تک جاری رہی ۔جس میں سرحد پر فائرنگ کے واقعات کی روک تھام کیلئے  تجاویز پیش کی گئیں۔سرکاری طور پر دونوں جانب سے سرحد پر مسلح تصادم میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔افغانستان کی طرف سے اس پر بار بار در اندازی ہوتی ہے۔  افغان پولیس جنرل شیر محمد خان نے حکومتِ پاکستان کو کالعدم شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان سرحد پر لگ بھگ پانچ روز تک فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہفتے کو فائر بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔دونوں ملکوں کے سرحدی اہلکاروں کے درمیان فائر بندی کا فیصلہ سرحدی گزرگاہ خرلاچی میں ایک جرگے کے دوران ہوا۔ جرگے میں پاکستانی وفد کی قیادت بریگیڈیئر شہزاد عظیم نے کی جبکہ افغان وفد کی قیادت پولیس چیف شیر محمد خان نے کی۔جرگے میں فیصلہ ہوا کہ قبائلی ضلع کرم اور افغانستان کے سرحدی صوبہ پکتیکا کے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل روایتی جرگہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کو باہمی بات چیت سے حل کرے گا۔دونوں ملکوں کے سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان 13 مئی کو دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا تھا جو جمعہ کی شام تک وقفے وقفے سے جاری تھا۔مقامی سرکاری عہدیداروں کے جاری کردہ بیان کے مطابق مشترکہ جرگے کی کارروائی لگ بھگ دو گھنٹے تک جاری رہی۔ جس میں سرحد پر فائرنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔جرگہ عمائدین نے اس موقع پر مستقل طور پر رابطے قائم کرنے پر زور دیا۔کرم کے سول اور سیکیورٹی عہدیداروں کے جاری کردہ بیان کے مطابق قبائلی جرگہ میں تین نکات پر اتفاق ہوا ہے جس کی رو سے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے خرلاچی گیٹ کو کھولا جائے، تین روز بعد دونوں طرف سے افغان مشیران اور پاکستانی مشیران کا جرگہ منعقد کیا جائے جسمیں تنازعات کے حل کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔اس کے علاوہ تنازعات کے حل کے لیے دونوں اطراف سے ایک ماہ میں کمیٹیاں بنائی جائیں گی جس میں تجارتی کمیٹی الگ اور اقتصادی کمیٹی الگ الگ مسائل پر رابطہ کریں گی۔سرکاری طور پر دونوں جانب سے سوموار کی شام سے جمعہ کی رات تک وقفے وقفے سے جاری مسلح تصادم میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔البتہ کرم کے مرکزی انتظامی شہر پاڑہ چنار میں حکام اور قبائلی رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ سرحد پار فائرنگ سے لگ بھگ 15 تالبان اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں جب کہ افغان اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک اہلکار شہید اور سات زخمی ہوئے ہیں۔سرحد پر دو طرفہ فائرنگ کے باعث 500 سے زائد خاندانوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کی تھی جب کہ علاقے میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے۔دونوں ہمسایہ ممالک کے سرحدی علاقوں کے سرکردہ قبائلی رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے بریگیڈیئر شہزاد عظیم نے کہا کہ جب پاکستان کے سول اور سیکیورٹی اہلکار چوکیوں پر کام کر رہے ہیں تو افغانستان کی طرف سے اس پر بار بار در اندازی ہوتی ہے جب کہ پاکستان کی جانب سے کبھی افغانستان کی حدود می تعمیراتی کام میں مداخلت نہیں کی جاتی۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ سرحد پار افغانستان میں لوگ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک تالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور یہی دہشت گرد پاکستان میں بے گناہ لوگوں اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے کرتے ہیں۔

بریگیڈیئر شہزاد عظیم نے کہا کہ ان کا افغانستان کی حکومت یا عوام سے کسی قسم کا تنازع یا جنگ نہیں بلکہ ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کے لوگوں اور حکومت کی جنگ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے کبھی افغانستان کے سیکیورٹی اداروں کے لیے مشکلات پیدا نہیں کیں۔ البتہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران سرحدی علاقوں سپینہ شگا اور تیری منگل کے علاقوں میں افغانستان کی جانب سے دراندازی اور فائرنگ کی جارہی ہیے اور شکایت کے باوجود کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔قبائلی رہنماؤں سے افغانستان کے پولیس جنرل شیر محمد نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں بھائی ہیں اور امارات اسلامی پاکستان کے لوگوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے مقامی سیکیورٹی اور انتظامی عہدیداروں کو پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطہ کرنے اور ہر قسم کے اختلافات اور تنازعات کو باہمی گفت و شنید سے حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مشترکہ کمیٹیاں بنانے پر زور دیا ہے۔شیر محمد خان نے حکومتِ پاکستان کو کالعدم شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دیا اور کہا کہ جب تک ٹی ٹی پی ہوگی پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی جاری رہے گی۔

Governor Khyber Pakhtunkhwa's visit to Peshawar Institute of Cardiology, Hayatabad

گورنرخیبرپختونخوا کا پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی حیات آباد کا دورہ

گورنرخیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے اتوار کے روز پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی حیات آباد کا دورہ کیا اور وہاں زیر علاج سپریم کور ٹ آف پاکستان کی جج جسٹس مسرت ہلالی کی عیادت کی اور گلدستہ بھی پیش کیا. گو رنر نے اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی کی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا.

5unggq2o_ebrahim-raisi_625x300_21_April_24

ایرانی صدر ہیلی کاپٹر حادثے میں جانبحق, پاکستان کا سوگ منانے کا اعلان

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے ہیلی کاپٹر حادثہ میں جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی۔ گورنر خیبر پختونخوا کا پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر رضا امیری مقدم سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ گورنر کا ایرانی سفیر سے اظہار افسوس، دلی رنج و غم کا اظہار کیا۔ واقعہ پر دل بہت افسردہ ہے، ایرانی حکومت و ایرانی عوام کے غم میں برابر کے شریک ہیں، اپنی اور خیبرپختونخوا کے عوام کیجانب سے ایرانی حکومت و ایرانی عوام سے اظہار تعزیت پیش کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ ابراہیم رائیسی اور انکے ساتھیوں کے درجات بلند کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، گورنر فیصل کریم کنڈی کی افسوسناک حادثہ میں جاں بحق ہونیوالے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان، گورنر تبریز ملک رحمتی کے درجات بلندی کی دعا، پسماندگان و ایرانی عوام سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔

پاکستان کا یوم سوگ منانے اور قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے اچھے دوست تھے۔ قومی پرچم سرنگوں رہے گا، وزیراعظم شہبازشریف

Visit of the Deputy Chief of the American Embassy to the tourist destination Attock Khurd

ڈپٹی چیف امریکن ایمبیسی کا سیاحتی مقام اٹک خورد کا دورہ

ڈپٹی چیف امریکن ایمبیسی کا امریکن گروپ کے ہمراہ پشاور ڈویژن میں واقع ایشاء کے خوبصورت ترین پر فضا ء سیاحتی مقام اٹک خورد  کا دورہ کیا۔اٹک خورد پہنچے پر سٹیشن ماسٹرز عظمت جہانگیر نے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور اٹک خورد کی تاریخی اہمیت کے بارے میں بریفنگ دی۔ڈپٹی چیف امریکن ایمبیسی نے اٹک خورد کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے سیاحوں کے لیے بہترین مقام قرار دیا ریلوے سٹاف کیطرف بہترین انتظامات اور مہمان نوازی پر پاکستان ریلوے کا شکریہ ادا کیا۔

Serious Pakistanis looking for the truth

سنجیدہ پاکستانیوں کو سچ کی تلاش

عقیل یوسفزئی

یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ پاکستان کے سنجیدہ لوگ گزشتہ چند برسوں سے نہ صرف یہ کہ ذہنی تشدد اور ڈپریشن سے دوچار ہیں بلکہ ان کو بعض واقعات ، اقدامات اور معاملات سے متعلق درست معلومات  اور متوازن تجزیوں کی عدم دستیابی کا بھی سامنا ہے ۔ فیک یا جھوٹی خبروں اور معلومات کے ” فیشن” نے اب ایک مہارت اور باقاعدہ ڈیجیٹل بزنس کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معاشرہ جھوٹی خبروں کی دنیا میں رہنے کا عادی ہوگیا ہے تو غلط نہیں ہوگا ۔

افسوس بلکہ شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہر طرف جھوٹ بکتا بھی ہے اور لاکھوں لوگ اس کاروبار سے اپنے بچوں کا پیٹ بھی پال رہے ہیں ۔ اس کاروبار کو مہارت سمجھ کر اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے اور جھوٹ کو سچ منوانے کی کوشش میں دوسروں کی کردار کشی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ بہت سے لوگ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے شوق دیوانگی میں بعض ان ایشوز سے متعلق بھی درست معلومات اور تفصیلات کے بغیر یہ کاروبار چلانے سے گریز نہیں کرتے جس سے بعض لوگوں کی زندگی وابستہ ہوتی ہے یا داؤ پر لگ سکتی ہے ۔بعض دیگر مثالوں کے علاوہ جب گزشتہ دنوں کرغستان میں ایک واقعے کے بعد مقامی شدت پسند اسٹوڈنٹس نے دوسرے ممالک سے حصول تعلیم کے لیے آنیوالے سٹوڈنٹس پر تشدد کا شرمناک آغاز کیا تو پاکستان کے اندر ہزاروں لوگوں نے درست معلومات اور درکار تفصیلات جانے بغیر نہ صرف ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے درجنوں پاکستانی اسٹوڈنٹس کی ہلاکتوں کی اطلاعات فراہم کیں بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ متعدد پاکستانی طالبات کی آبرو ریزی ( خدا نخواستہ ) بھی کی گئی ہے ۔ اس قسم کی اطلاعات سے ان سینکڑوں خاندانوں پر کیا گزرتی ہوگی جن کی بچیاں وہاں مشکل میں تھیں اور والدین کے ساتھ ان کا رابطہ نہیں ہوپارہا تھا ۔ اس متوقع اذیت ناک صورتحال کا شاید ہی کسی نے احساس کیا ہو ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانیوں سمیت دنیا کے تقریباً 36 ممالک کے اسٹوڈنٹس وہاں اس پرتشدد صورتحال سے دوچار تھے اور ان کی تکلیف کا فوری نوٹس لینا میڈیا اور حکومت کا فرض تھا تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کا ردعمل دوسرے ممالک کے ہاں کیوں دیکھنے کو نہیں ملی اور عالمی میڈیا نے ان واقعات کو ہائی لائٹ کیوں نہیں کیا حالانکہ جس طالبہ کے ساتھ جھگڑے کے معاملے پر یہ سلسلہ شروع ہوا تھا وہ مصر سے تعلق رکھتی ہیں اور مصر نے بھی وہ ردعمل نہیں دکھایا جو ہمارے ہاں دیکھنے کو ملتا رہا ۔ ایک قابل اعتماد میڈیا رپورٹ کے مطابق جو غیر ملکی اسٹوڈنٹس اس صورتحال سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں بھارتی طلباء سب سے زیادہ ہے مگر وہاں بھی اس قسم کی صورتحال دیکھنے کو نہیں ملی کیونکہ ایسے معاملات سفارتی حدود و قیود کے اندر رہ کر نمٹائے جاتے ہیں اور یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ متاثرین اگر کل کو اس ملک میں اپنے تعلیمی یا کاروباری سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں تو ایسی تلخیوں اور ریپ جیسے سنگین الزامات کے بعد اس ملک کی حکومت اور عوام کا ان کے ساتھ رویہ کیسے ہوگا ۔ اگر چہ پاکستان کے سفارت خانوں اور وزارت خارجہ کی مجموعی کارکردگی کو مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس صورتحال میں بھی ان سے کوتاہیاں ہوئی ہوں گی تاہم سیاسی اختلاف اور منفی پروپیگنڈا کے نفسیاتی مسائل کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم نے اس معاملے کا ہنگامی طور پر نوٹس لیا ، متعدد اسٹوڈنٹس کو لاہور پہنچایا گیا اور دو وفاقی وزراء پر کم مشتمل ٹیم کو فوری طور پر بھیجنے کے احکامات جاری کیے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے معاملات پر جھوٹی اور نامکمل غیر مصدقہ اطلاعات پھیلانے سے نہ صرف گریز کیا جائے بلکہ جو لوگ ریاست اور حکومت کی سیاسی مخالفت کی آڑ میں ایسے واقعات پر پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہیں ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے کیونکہ کسی بھی ملک میں ایسے رویوں اور ڈراموں کی اجازت نہیں دی جاتی یہاں تو بعض لوگوں نے اظہار رائے کے نام پر ذاتی مفادات کے لیے معاشرے کو برباد کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اگر اس سلسلے کو روکا نہیں گیا تو کل کو نہ کوئی ایسے لوگوں پر اعتماد کریں گے اور نہ ہی کسی کی سیکریسی اور عزت محفوظ رہے گی ۔

Abbottabad: Tourism advisor visits Guliyat, instructions to end encroachments immediately

ایبٹ آباد:مشیر سیاحت کا دورہ گلیات، تجاوزات فوری ختم کرنے کی ہدایت

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے سیاحت، ثقافت و آثارقدیمہ زاہد چن زیب نے گلیات میں غیر قانونی تجاوزات پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر ہٹانے اور لیز پر دیئے جانے والی تمام جگہوں کی رپورٹ دس روز میں انہیں پیش کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔ مشیر سیاحت و ثقافت زاہد چن زیب نے نتھیاگلی اور ڈونگا گلی میں پارکس، پبلک واش رومز اور پارکنگ ایریاز کا تفصیلی دورہ کیا اس موقع پر انہوں نے واش رومز کی حالت ابتر ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے فوری طور پر مرد و خواتین کیلئے 20 واش رومز الگ مختص کرکے انہیں پاک و صاف رکھنے کی ہدایات جاری کیں جبکہ ساتھ ہی ڈونگا گلی میں سیاحوں کیلئے ریسٹ ایریا پر موجود تجاوزات ختم کرکے اسے صرف سیاحوں کیلئے آرام گاہ کے طور پر رکھنے کے احکامات جاری کئے۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ ڈونگا گلی میں موجود اراضی کا نقشہ تیار کرکے سیاحوں کیلئے جدید پارکنگ ایریا بنایا جائے تاکہ گلیات میں پارکنگ کا مسئلہ صحیح معنوں میں حل ہو سکے۔ انہوں نے ہمالہ ہاؤس کا دورہ بھی کیا اور وہاں جاری تزئین و آرائش کا ضروری کام جلد مکمل کرنے نیز اس میں سیاحوں کیلئے وائی فائی اور دیگر سہولیات فراہمی کی ہدایات جاری کیں۔ انہوں نے مزید ہدایت کی کہ گلیات اور دیگر سیاحتی مقامات پر تعینات ٹورازم پولیس کو گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی فراہمی کا عمل بھی فوری شروع کیا جائے نیز ان کیلئے چیک پوسٹ بھی تعمیر کئے جائیں جہاں سیاحوں کی جامہ تلاشی کی بجائے خوش اخلاق پولیس جوان ان کا خیرمقدم کریں اور انہیں سہولیات و رہنمائی مہیا کرنے کیلئے موجود ہوں گے تو سیاحوں کو خوشگوار تبدیلیاں محسوس ہوں گی۔ زاہد چن زیب نے گلیات ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو سڑکوں کے اطراف میں ہر قسم کی تجاوزات فوری ختم کرنے جبکہ لیز پر دی جانے والی مختلف املاک ریسٹ ایریاز کی تفصیلی رپورٹ انہیں دس روز کے اندر پیش کرنے کی ہدایت بھی کر دی۔ انہوں نے کہا کہ سیزن سے قبل یہاں پر ہر قسم کے تجاوزات کا خاتمہ یقینی بنایا جائے تاکہ سیزن میں سیاحوں کے بڑھتے رش کو بطریق احسن مینج کیا جا سکے۔ انہوں نے ٹورازم حکام کو ہدایت کی کہ سیاحوں کو ٹورازم ہیلپ لائن کی افادیت سے بھرپور آگاہی دلائیں تاکہ وہ سیاحتی مقامات کا رخ کرنے سے قبل محکمہ ٹورازم کی ہیلپ لائن 1422 پر رابطہ کرکے موسمی صورتحال سے آگاہی سمیت پوری معلومات حاصل کر سکیں اور دوران سفر بھی انہیں گاڑی کی خرابی یا دوسری کوئی بھی مشکل درپیش ہو تو انکی عملی طور پر مدد کی جا سکے۔