عقیل یوسفزئی
یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ پاکستان کے سنجیدہ لوگ گزشتہ چند برسوں سے نہ صرف یہ کہ ذہنی تشدد اور ڈپریشن سے دوچار ہیں بلکہ ان کو بعض واقعات ، اقدامات اور معاملات سے متعلق درست معلومات اور متوازن تجزیوں کی عدم دستیابی کا بھی سامنا ہے ۔ فیک یا جھوٹی خبروں اور معلومات کے ” فیشن” نے اب ایک مہارت اور باقاعدہ ڈیجیٹل بزنس کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معاشرہ جھوٹی خبروں کی دنیا میں رہنے کا عادی ہوگیا ہے تو غلط نہیں ہوگا ۔
افسوس بلکہ شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہر طرف جھوٹ بکتا بھی ہے اور لاکھوں لوگ اس کاروبار سے اپنے بچوں کا پیٹ بھی پال رہے ہیں ۔ اس کاروبار کو مہارت سمجھ کر اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے اور جھوٹ کو سچ منوانے کی کوشش میں دوسروں کی کردار کشی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ بہت سے لوگ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے شوق دیوانگی میں بعض ان ایشوز سے متعلق بھی درست معلومات اور تفصیلات کے بغیر یہ کاروبار چلانے سے گریز نہیں کرتے جس سے بعض لوگوں کی زندگی وابستہ ہوتی ہے یا داؤ پر لگ سکتی ہے ۔بعض دیگر مثالوں کے علاوہ جب گزشتہ دنوں کرغستان میں ایک واقعے کے بعد مقامی شدت پسند اسٹوڈنٹس نے دوسرے ممالک سے حصول تعلیم کے لیے آنیوالے سٹوڈنٹس پر تشدد کا شرمناک آغاز کیا تو پاکستان کے اندر ہزاروں لوگوں نے درست معلومات اور درکار تفصیلات جانے بغیر نہ صرف ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے درجنوں پاکستانی اسٹوڈنٹس کی ہلاکتوں کی اطلاعات فراہم کیں بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ متعدد پاکستانی طالبات کی آبرو ریزی ( خدا نخواستہ ) بھی کی گئی ہے ۔ اس قسم کی اطلاعات سے ان سینکڑوں خاندانوں پر کیا گزرتی ہوگی جن کی بچیاں وہاں مشکل میں تھیں اور والدین کے ساتھ ان کا رابطہ نہیں ہوپارہا تھا ۔ اس متوقع اذیت ناک صورتحال کا شاید ہی کسی نے احساس کیا ہو ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانیوں سمیت دنیا کے تقریباً 36 ممالک کے اسٹوڈنٹس وہاں اس پرتشدد صورتحال سے دوچار تھے اور ان کی تکلیف کا فوری نوٹس لینا میڈیا اور حکومت کا فرض تھا تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کا ردعمل دوسرے ممالک کے ہاں کیوں دیکھنے کو نہیں ملی اور عالمی میڈیا نے ان واقعات کو ہائی لائٹ کیوں نہیں کیا حالانکہ جس طالبہ کے ساتھ جھگڑے کے معاملے پر یہ سلسلہ شروع ہوا تھا وہ مصر سے تعلق رکھتی ہیں اور مصر نے بھی وہ ردعمل نہیں دکھایا جو ہمارے ہاں دیکھنے کو ملتا رہا ۔ ایک قابل اعتماد میڈیا رپورٹ کے مطابق جو غیر ملکی اسٹوڈنٹس اس صورتحال سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں بھارتی طلباء سب سے زیادہ ہے مگر وہاں بھی اس قسم کی صورتحال دیکھنے کو نہیں ملی کیونکہ ایسے معاملات سفارتی حدود و قیود کے اندر رہ کر نمٹائے جاتے ہیں اور یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ متاثرین اگر کل کو اس ملک میں اپنے تعلیمی یا کاروباری سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں تو ایسی تلخیوں اور ریپ جیسے سنگین الزامات کے بعد اس ملک کی حکومت اور عوام کا ان کے ساتھ رویہ کیسے ہوگا ۔ اگر چہ پاکستان کے سفارت خانوں اور وزارت خارجہ کی مجموعی کارکردگی کو مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس صورتحال میں بھی ان سے کوتاہیاں ہوئی ہوں گی تاہم سیاسی اختلاف اور منفی پروپیگنڈا کے نفسیاتی مسائل کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم نے اس معاملے کا ہنگامی طور پر نوٹس لیا ، متعدد اسٹوڈنٹس کو لاہور پہنچایا گیا اور دو وفاقی وزراء پر کم مشتمل ٹیم کو فوری طور پر بھیجنے کے احکامات جاری کیے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے معاملات پر جھوٹی اور نامکمل غیر مصدقہ اطلاعات پھیلانے سے نہ صرف گریز کیا جائے بلکہ جو لوگ ریاست اور حکومت کی سیاسی مخالفت کی آڑ میں ایسے واقعات پر پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہیں ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے کیونکہ کسی بھی ملک میں ایسے رویوں اور ڈراموں کی اجازت نہیں دی جاتی یہاں تو بعض لوگوں نے اظہار رائے کے نام پر ذاتی مفادات کے لیے معاشرے کو برباد کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اگر اس سلسلے کو روکا نہیں گیا تو کل کو نہ کوئی ایسے لوگوں پر اعتماد کریں گے اور نہ ہی کسی کی سیکریسی اور عزت محفوظ رہے گی ۔