Operation Azm-e-Istehkam
Shahzad Masood Roomi
In a pivotal National Action Plan Apex Committee session held on June 22, 2024, Pakistan took a resolute step forward by discarding the divisive notion of “good” and “bad” Taliban, marking a significant shift towards comprehensive counterterrorism measures. Under the banner of “Azam-e-Istehkam,” the government declared an unwavering commitment to eradicating terrorism from its roots.
Led by Prime Minister Shehbaz Sharif, the committee underscored the urgency of decisive action across all troubled regions of the nation. From Khyber Pakhtunkhwa to Balochistan, and beyond borders, every minute will be dedicated to eliminating terrorists and their supporters. This commitment was echoed by Chief Minister Ali Amin Gandapur, who unequivocally stated that any distinction between Taliban factions exists only in history books.
However, this is not the first time a national-level effort has been launched to eradicate the menace of local and cross-border terrorism from Afghanistan. Naturally, one might ask how this operation will differ from those launched before it. The answer lies in the details issued by the Prime Minister’s Office in Islamabad to the media.
According to the press release by the PMO, Azm-e-Istehkam is not merely a military operation but a comprehensive national approach, as envisaged in the National Action Plan after the dreadful incident at APS Peshawar in 2014. The first departure from traditional military-led kinetic operations is the emphasis on strengthening legal frameworks to ensure swift and exemplary punishment for terrorists. The announcement also highlighted simplifying procedures to expedite justice and establishing a robust, coordinated mechanism to combat terrorism comprehensively. These are promising steps and, if implemented in letter and spirit, can bring a visible change in the country’s internal security situation. However, this also poses a significant test for the country’s political leadership to implement this legal agenda on a war footing.
It is commendable how the Prime Minister stressed the indispensable role of a strong judiciary in this fight, asserting that the judiciary’s effectiveness is pivotal to the nation’s ability to combat terrorism effectively. Throughout Pakistan’s war against terrorism, a weak judicial system has remained its Achilles Heel. Despite multiple amendments, there are many legal loopholes in the prevailing judicial framework that allow terrorists or their sympathizers to escape punishment. Hopefully, now all these weaknesses will be addressed, and Pakistan will have a strong legal code to deter terrorism and extremism. Another feature of this operation is the recognition of the intertwined nature of crimes like drug trafficking, religious extremism, terrorism, and street crime. Hence, emphasis will be placed on better inter-provincial coordination to ensure criminals cannot escape punishment by simply changing their location from one province to another. Such coordination was lacking in many previous efforts.
Pakistan’s military command has fully endorsed the government’s initiative of Azm-e-Istehkam. The resolve exhibited by leaders like Army Chief General Syed Asim Munir and other key stakeholders reaffirms a united front against terrorism. They reiterated that this battle transcends mere military operations—it demands a cohesive national effort.
The announcement of this operation also depicts a growing realization in Islamabad about the importance of peace and security for attracting much-needed investment, which is vital for Pakistan’s strategic economic interests.
The inclusion of diplomatic efforts in this initiative is another welcome addition. So far, Pakistan has suffered diplomatically due to inconsistent behavior in this domain. Despite being a victim of foreign-sponsored terrorism, Pakistan has failed to proactively present its case on international forums, while hostile entities in the region have successfully painted a bleak picture of Pakistan on internal security matters. Merely sending dossiers to the UN and influential capitals is not enough; instead, Pakistan needs a dedicated, consistent, and aggressive diplomatic effort to present its case. Against this backdrop, a renewed emphasis on linking diplomatic efforts with kinetic actions and legal reforms is a promising step forward in the country’s war against terrorism.
In conclusion, the state underscored the imperative of unity and proactive measures across all sectors of governance. As the nation embarks on this journey, it must uphold these commitments with unwavering dedication and vigilance for its people’s safety and future prosperity. The biggest responsibility lies on the shoulders of the federal government and judiciary, as the Pakistani military has been conducting operations daily already. Their sacrifices and efforts have been undermined by a weak judicial framework against terrorism. Insha’Allah, with Azm-e-Istehkam, not only will these weaknesses be addressed, but the motherland will enter a new era of prosperity, peace, and progress.
بجلی چوری: بل دہندگان شدید متاثر
وصال محمد خان
بجلی چوری: بل دہندگان شدید متاثر
ملٹی نیشنل کمپنی نے ایک علاقے میں سپرسٹورکھولا۔شروع میں جب مہنگائی خاصی کم تھی ،لوگوں کومناسب قیمت پرسٹورسے اشیائے ضروریہ دستیاب تھیں ،سٹورکابل جائزاورمناسب تھا،عملہ ایماندارتھااورلوگوں کیساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتاتھاتوسٹوربھی اچھے اندازسے چل رہا تھاکسی کسٹمرکواول توکوئی شکایت نہیں ہوتی تھی اوراگرایسی کوئی نوبت آتی توسٹورکامستعدعملہ اسکی خدمت کیلئے ہمہ وقت تیاررہتاتھااورفوری کارروائی عمل میں آجاتی تھی جس کے نتیجے میں کمپنی کے کرتادھرتابھی مطمئن تھے کہ انہیں سٹورسے اچھی خاصی آمدن مل جاتی تھی۔ مگرآبادی بے تحاشابڑھ جانے کے باعث سٹورپرگاہکوں کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوا۔اور‘‘حادثہ یکدم نہیں ہوتا’’کے مصداق حالات آہستہ آہستہ خرابی کی جانب گامزن ہوئے سٹور منافع کی بجائے نقصان میں جانے لگاجس سے کمپنی کومصنوعات کی قیمتیں بڑھانی پڑیں ،عملے کی تعدادکئی گنا بڑھادی گئی ،مزیدچوکیدار،سیکیورٹی گارڈز،کلرکس ،اکاؤنٹنٹس،ڈرائیورزاوربڑے بڑے ماہرافسران بھرتی کئے گئے اورسی سی ٹی وی وغیرہ نصب کردئے گئے اسکے باوجودسٹورکاخسارا‘‘مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی’’ کے مصداق مزیدبڑھ گیابلکہ بڑھتاہی چلاگیا۔ کمپنی کے ہر اقدام کانتیجہ صفررہااورسٹورسے مصنوعات کی قیمتیں بے تحاشابڑھنے کے سبب چوری روزبروزبڑھتی رہی سٹورافرادی قوت کے لحاظ سے دنیاکے بڑے براعظم کا سب سے بڑاسٹور ہے اسکے پاس وسائل کی کمی نہیں افرادی قوت کے لحاظ سے پورے براعظم میں کوئی ادارہ اس کے مقابلے کاتوان نہیں رکھتااسکے پاس انجینئرز،ہرمیدان کے شہسوار ماہرین اوراعلیٰ دماغ موجودہیں ۔کمپنی عملے کی نگرانی کیلئے بھی کوشاں ہے۔ ان تما م اقدامات کے باوجود سٹورسے چوری کاسلسلہ جاری وساری رہاجس کے نتیجے میں سٹور جوکبھی منافع بخش تھا اب خسارے کا شکارہونے لگا سٹور اگراسی طرح خسارے کاشکارہوتارہا تواسے بندکرنے کی نوبت آسکتی تھی مگرسٹورچلانااب کمپنی کی مجبور ی ہے۔ اسلئے خسارے سے نکلنے کاایک ہی طریقہ تھاکہ مصنوعات کی قیمتیں مزیدبڑھائی جائیں قیمتیں بڑھتی رہیں جوخریداروں کی پہنچ سے دورہونے لگیں کمپنی کی جانب سے آئے روزقیمتیں بڑھانے کاقدرتی نتیجہ یہی برآمدہواکہ سٹورسے چوری میں تیزی آئی اب ہرایراغیرانتھو خیراچھوٹا بڑاکسٹمردھڑلے سے چوری کرنے لگاکچھ چوری عملے کی ملی بھگت سے ہوتی رہی جبکہ عملے کی آنکھ بچاکربھی یہ سلسلہ جاری رہا۔کمپنی کے کرتا دھرتاسرجوڑکربیٹھ گئے اورمسئلے کاحل تلاش کرنے لگے ۔کمپنی ماہرین نے طویل غوروخوض کے بعدسٹورمیں ‘‘لوڈشیڈنگ ’’کافیصلہ کرلیا۔ شروع میں گھنٹے دوگھنٹے کیلئے سٹوربندکیاجاتارہامگرجوں جوں چوری بڑھتی گئی سٹوربندکرنے کے اوقات بھی بڑھائے جاتے رہے۔ اب بعض علاقوں کیلئے سٹوربائیس گھنٹے تک بندرہتاہے جبکہ کچھ پوش علاقوں کیلئے‘‘ چوبیس بٹاسات ’’کھلارہتاہے ۔ جن علاقوں کیلئے ‘‘سیل’’بند رہتاہے ان علاقوں کے لوگ سٹوراورکمپنی کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں کمپنی نے جن علاقوں کیلئے سٹوربندرکھنے کافیصلہ کیاہے وہاں کے کے تمام کسٹمرزچورنہیں ہیں بلکہ وہاں شریف صارفین کی بھی اچھی خاصی تعدادموجودہے مگرگھن کیساتھ گیہوں بھی پس رہاہے۔کمپنی کادعویٰ ہے کہ اس اعلی معیارکی حکمت عملی سے وہ خسارے پرقابو پالے گی جبکہ دوسری جانب ‘‘سیل’’بندہونے سے جونقصان ہورہاہے اسے بھی شریف صارفین سے وصول کیاجارہاہے شریف صارفین دوہرے عذاب میں مبتلاکردئے گئے ہیں ۔ایک توچوری کرنے والوں کا نقصان وہ بھررہے ہیں دوسرے سیل بندہونے کاخسارابھی انہی سے پورا کیاجارہا ہے۔ یعنی‘‘ وہ ادھاربھی چکارہے ہیں جوانہوں نے لیاہی نہیں’’ جبکہ انہیں پروڈکٹ ملنے میں بھی شدیددشواری کاسامناہے ۔حکومت نامی اس کمپنی ،واپڈا نامی سٹوراوربجلی نام کی پروڈکٹ عوام کیلئے رحمت کی بجائے زحمت بن چکی ہے سٹوراگرخسارے میں جا رہاہے اس سے چوری ہورہی ہے تو سٹورکوبندکرناحماقت ہی کہلائے گی اسکی بجائے اخراج کے راستے روکنے پرتوجہ مرکوزکرنابہترین حکمت عملی شمارہوگی ۔ بجلی چوری روکنے کیلئے اسکی ننگی تاریں ختم کی جائیں اسکی بجائے کورڈ کیبل کااستعمال عام کیاجائے یہ اگرچہ نسبتاً مہنگاہے مگراس سے چوری اگرناممکن نہیں تومشکل ضرورہے ۔ننگی تارو ں سے کوئی بھی فردکسی بھی وقت کنڈے کے ذریعے بجلی چوری کرسکتاہے درختوں کے قریب سے گزرنے والی ننگی تاریں بجلی کی ضیاع کاباعث بن رہی ہیں حکومت نے پون صدی میں بجلی کاجوترسیلی نظام وضع کیاہے یہ دنیاکاناکام ترین نظام کہلائے جانے کی مستحق ہے ۔ذراسی تیز ہواچلنے ،درختوں کی شاخیں اورپتے ذراسے تیز ہلنے کے باعث گھنٹوں بجلی کابندرہنامعمول بن چکاہے خسارہ کم کرنے کیلئے ہزاروں ارب روپے کے جواخراجات کئے جارہے ہیں ان میں سے کچھ رقم کورڈکیبلزکیلئے مختص ہونی چاہئے یہ بیک جنبش قلم اگرچہ ممکن نہیں مگر مرحلہ وارکورڈ کیبل پرمنتقل ہوناکوئی بڑا مسئلہ بھی نہیں ہوناچا ہئے ۔حکومت کوبجلی چوری کاڈھنڈوراپیٹتے رہنے کی بجائے واپڈاعملے پر توجہ دینے کی اشدضرورت ہے بجلی چوری میں اسکاعملہ پوری طرح ملوث ہے کوئی لاچارشخص کنڈالگاکرجتنی بجلی چوری کرتاہے اس سے ہزار گنازیادہ بجلی کمرشل پلازہ مالکان ،پٹرول پمپس اورانڈسٹری چوری کررہے ہیں جوعملے کی ملی بھگت کے بغیرممکن نہیں ۔بجلی چوری روکنے کیلئے پولیس اوردیگرسیکیورٹی اہلکاروں سمیت عملے کی خدمات پرجورقم خرچ ہورہی ہے یہی رقم کورڈکیبلزاورزیرزمین نظام وضع کرنے پرخرچ کی جائے عملے کی سخت نگرانی ہو، میٹرمخصوص جگہوں پریعنی ٹرانسفارمرزکے قریب نصب کئے جائیں کسی بھی مکان ،دوکان یاحجر ے کے قریب کورڈکیبل زخمی ہونے کی صورت میں قریبی رہائشی کے خلاف نہ صرف ایف آئی آردرج کی جائے بلکہ ایسے افرادپربھاری جرمانے عائد کئے جائیں بجلی بندکرنامسئلے کاحل نہیں سطحی اقدامات کی بجائے عملی اقدامات لئے جائیں توبجلی چوری روکنااورلائن لاسزکم یا ختم کرناچاندپر مشن بھیجنے سے زیادہ مشکل نہیں بجلی بندکرنے اورلوڈ شیڈ نگ کادورانیہ بڑھانے سے شریف صارفین بری طرح متاثرہورہے ہیں جو انکے ساتھ صریحاًناانصافی بلکہ ظلم ہے۔ اگر چوری ہونے پرکسی سٹورکو تالے نہیں لگائے جاسکتے تواسی عمل کے جوازمیں بجلی کیونکربندکی جاسکتی ہے؟
عزم استحکام: قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ
وصال محمد خان
وطن عزیزمیں دہشت گردی اورانتہاپسندی سے نمٹنے کیلئے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کافیصلہ کرلیاگیاہے یہ فیصلہ ہفتے کونیشنل ایکشن پلان کے تحت مرکزی ای پیکس کمیٹی کے اجلاس میں کیاگیاہے اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف سمیت کابینہ کے اہم وزرا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر،سروسزچیفس ، وزیراعظم آزادکشمیر ،گلگت بلتستان اورچاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ صوبائی چیف سیکرٹریزاوردیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔اجلاس میں ملک کی موجودہ سیکیورٹی حال کومدنظررکھتے ہوئے فیصلہ کیاگیاکہ ملک بھرمیں آپریشن عزم استحکام کے تحت کارروائیاں شروع کی جائیں گی وزیراعظم شہبازشریف نے اس اہم نوعیت کے فیصلے کی منظوری دیتے ہوئے کہاکہ صوبائی حکومتیں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں فوج پرڈال برالذمہ نہیں ہوسکتیں سیکیورٹی معاملات کوصرف ایک ادارے پرڈال دیناخطرناک روش ہے اس حوالے سے صوبوں کوبھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہونگیں کوئی ایک ادارہ تن تنہااس چیلنج سے نبرآزمانہیں ہوسکتاجب تک اسے تمام سٹیک ہولڈرزکی حمایت حاصل نہ ہو۔
اجلاس میں تمام سٹیک ہولڈرزنے آپریشن عزم استحکام کے فیصلے سے اتفاق کیا اجلاس میں انسداددہشت گردی کی جاری مہم اورداخلی سلامتی کی صورتحال کاجامع جائزہ لیاگیاخاص طورپرنیشنل ایکشن پلان کے تحت کچھ اقدامات پرعملدرآمدنہ ہونے کی خامیوں کی نشاندہی پرزوردیاگیااوراس عزم کااعادہ کیاگیاکہ داخلی اورخارجی سیکیورٹی پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائیگا۔اجلاس نے اتفاق رائے سے آپریشن ‘‘عزم استحکام’’ کے ذریعے انسداددہشت گردی کے قومی مہم کودوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی ۔ملک میں سیکیورٹی کی دن بدن خراب ہوتی ہوئی صورتحال کاتقاضاہے کہ تمام سٹیک ہولڈرزاپنااپناکرداربھرپورطریقے سے اداکریں اورقومی سلامتی پرکسی قسم کاکوئی سمجھوتہ نہ ہو۔
مقام شکرہے کہ ملک کی اعلیٰ سطحی سیاسی اورفوجی قیادت نے اس ضرورت کومحسوس کیا اوردہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کاصائب اوردرست فیصلہ کیاگیا۔ گزشتہ چندبرسوں سے ملک معاشی عدم استحکام کاشکارہے تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے ملک کو دیولیہ پن کی نہج پرپہنچادیاہے جہاں اس حکومت کے پاس معاشی پالیسیوں کا فقدان تھاوہاں اس نے سیکیورٹی کے حوالے سے بھی ملک کوناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے اس نے افغانستان بھاگے ہوئے دہشت گردوں کودوبارہ ملک میں آبادکیااورجیلوں سے تھوک کے حساب سے دہشت گردرہاکروالئے ۔ دہشت گردچونکہ دہشت گردہوتے ہیں اورخون ریزی ان کامشغلہ ہوتاہے انہوں نے کسی صورت خونریزی سے بازنہیں آناہوتاپھرانہیں سہولیات دیتے وقت ریاست کواپنی سلامتی کوبھی مدنظؓررکھناہوتاہے مگرتحریک انصاف کی اس انوکھی حکومت نے دہشت گردوں کوسہولیات فراہم کیں، انہیں جیلوں سے رہاکروالیااورافغا انستان بھاگے ہوئے دہشت گردوں کویہاں لاکرانکی دوبارہ آبادکاری کی جنہوں نے سرحدپاربیٹھے ہوئے اپنے سرپرستوں کے ساتھ رابطے استوارکرلئے اورملک میں ایک دفعہ پھرآگ وخون کابازارگرم کرلیاگیا۔ جس کے نتیجے میں معیشت کی بحالی کوششوں کوبھی دھچکاپہنچا ۔چین چونکہ پاکستان کاایک ایسادوست ہے جوہرآڑے وقت میں کام آتاہے اورہرقسم کی صورتحال میں پاکستان کاساتھ دینے سے نہیں کتراتااس نے معاشی بحالی میں بھی پاکستان کی مددکابیڑااٹھایایہاں سی پیک اوراسکے تحت درجنوں پروجیکٹس شروع کئے جومعاشی بحالی کیلئے ضروری ہیں مگرعمران خان کے چھوڑے گئے دہشت گردوں نے چینی انجینئرزکونشانہ بناناشروع کردیا اورکئی چینی شہریوں کونشانہ بنادیا جوملک پاکستان کومعاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے ہرطرح کاتعاون کررہاہے اوراس سلسلے میں کسی بھی دباؤکوخاطرمیں نہیں لارہااسی ملک کے انجینئرزکواس بہیمانہ طریقے سے نشانہ بنانا اورانہیں بم دھماکوں میں مارناکہاں کااسلام ہے اوراس طرح کی قبیح فعل انجام دینے والے کہاں کے مسلمان ہیں ؟اگران دہشت گردوں کولگام نہیں دیاجاتااورانکے مکروہ عزائم خاک میں نہیں ملائے جاتے تونہ ہی پاکستان معاشی مشکلات پرقابوپانے میں کامیاب ہوگااورنہ ہی اپنی سلامتی برقراررکھنے میں۔
اس بدترین صورتحال کاادراک کرتے ہوئے ریاست پاکستان نے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کافیصلہ کیاہے جویقیناًایک صائب فیصلہ ہے اوراسکی ضرورت گزشتہ کچھ عرصے سے محسوس کی جارہی تھی خصوصاًاس صورت میں جب دہشت گردسیکیورٹی فورسزکے قافلوں کونشانہ بناکرکڑیل جوانوں کوموت کے گھاٹ اتارتے ہیں قوم اورسرحدوں کے محافظوں کونشانہ بنایاجاتاہے، سیاسی اجتماعات پرحملے کئے جاتے ہیں اورسیاسی راہنماؤں کونشانہ بنایاجاتاہے ۔ان حالات میں ریاست کواپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے آگے آناپڑتاہے اورملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کرنے والوں کاقلع قمع کیاجاتا ہے۔ پاکستان دفاعی لحاظ سے کوئی کمزورملک نہیں جس کاثبوت یہ ہے کہ شدید خواہش کے باوجود تیس لاکھ کی فوج رکھنے والابھارت پاکستان کی طرف میلی آنکھ اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتامگرکچھ سیاسی مصلحتوں اورسیاسی حکومتوں کے غلط فیصلوں کے سبب دہشت گردجودراصل گیدڑ ہیں شیربن کرملکی تنصیبات، معصوم شہریوں اورسیکیورٹی فورسزکے جوانوں پرحملے کرتے ہیں۔ مگرآپریشن عزم استحکام کے فیصلے پرعملدرآمد کے بعدانشاء اللہ ان سے یہ جرات چھن جائیگی اورانہیں کیفرکردارتک پہنچایاجائیگا۔ اس معاملے پرکسی نام نہاد سیاسی جماعت کوسیاست چمکانے سے بازآناہوگا.
ملک میں دہشت گردی کی فروغ میں تحریک انصاف کااہم کردارہے اب اسکے نام نہادراہنماآپریشن عزم استحکام کی مخالفت کررہے ہیں اگرانکی مخالفت کودرست مان لیاجائے تودہشت گردی کاتدارک کیسے ہوگا ؟کیاپاکستان انکے سیاسی فوائدکیلئے دہشت گردی کے آگے سرتسلیم خم کردے؟بالکل نہیں۔ آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرنے والی یہ جماعت یاکوئی بھی دیگرجماعتیں دہشت گردوں کے ساتھی تصورہونگے کیونکہ انکی روش سے دہشت گردی کوفروغ ملاہے ۔پاک فوج کوتحریک انصاف کی اچھل کودخاطرمیں نہ لاکرآپریشن عزم استحکام کے ذریعے دہشت گردی اورانتہاپسندی کی بیخ کنی پرتوجہ مرکوزرکھنی ہوگی ۔ دہشت گردی کے خلاف‘‘عزم استحکام ’’میں قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اوراسے اپنی فوج پریقین ہے کہ وہ دہشت گردی کے ناسورکوجڑسے اکھاڑپھینکنے میں کامیاب ہوگی۔
آپریشن عزم استحکام پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ یا کچھ اور ؟
آپریشن عزم استحکام پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ یا کچھ اور ؟
عقیل یوسفزئی
نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں امن کی بحالی اور دہشت گردی، شدت پسندی کے خاتمے کے لئے آپریشن عزم استحکام کی منظوری پر پاکستان تحریک انصاف اور جے یو آئی نے مخالفانہ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ دونوں پارٹیاں اس مجوزہ آپریشن کی حمایت نہیں کریں گی ۔ تحریک انصاف کے کور کمیٹی اجلاس میں بھی اس ممکنہ اقدام کی مخالفت کی گئی جبکہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے منسوب ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا مزید آپریشنز کا متحمل نہیں ہوسکتا اور یہ کہ اس سلسلے میں ان کے ساتھ کسی حتمی فیصلے کی بات چیت نہیں ہوئی ہے ۔ دوسری جانب اس پارٹی کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے ایک میڈیا ٹاک میں سوال اٹھایا ہے کہ حکمران ان کو یہ بتائیں کہ پاکستان میں آج تک کونسا آپریشن کامیاب ہوا ہے ۔ رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار نے بھی پارلیمنٹ میں ایسے ہی سوالات اٹھائے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے پارلیمنٹ والی تقریروں کا سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کی مخالفت وہ پارٹی کررہی ہے جس نے ہزاروں کی تعداد میں طالبان کو واپس بلاکر بسایا ۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی اور جنوبی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال خطرناک شکل اختیار کرگئی ہے اور صوبائی حکومت ، برسرِ اقتدار پارٹی نے ماضی میں بعض دیگر کی طرح گڈ اور بیڈ کی بحث میں معاملات کو مزید خراب کردیا ہے تاہم ریاستی رٹ کو ہر صورت قائم کیا جائے گا ۔ بعض دیگر وزراء نے یقین دھانی کرائی کہ اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے تناظر میں نہ صرف یہ کہ پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے گا بلکہ ممبران پارلیمنٹ کے لیے ان کیمرہ سیشن کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخوا کے عوام ،سیاسی حلقوں اور سیکورٹی اداروں نے ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ بہت قربانیاں دی ہیں بلکہ یہ صوبہ سب سے زیادہ متاثر بھی ہوا ہے تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ گزشتہ دو تین برسوں سے پاکستان میں ہونے والے 70 فی صد حملے خیبرپختونخوا ہی میں کرایے گئے ہیں ۔ ان حملوں میں تقریباً 78 فی صد حملوں کے دوران سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنایا گیا جس کو ریاست نے اپنے خلاف کھلے عام جنگ کا نام دیا ۔ صرف رواں مہینے خیبرپختونخوا کے 9 اضلاع میں تقریباً 14 بڑے حملے کئے گئے ۔ جن اضلاع کو بار بار نشانہ بنایا گیا ان میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سرفہرت ہے ۔ ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ سیکورٹی فورسز اور وفاقی حکومت محض اس وجہ سے معاملات سے لاتعلق نہیں رہ سکتیں کہ اس صوبے میں ایک مخالف پارٹی کی حکومت ہے اور وہ آپریشن یا دیگر اقدامات کی حامی نہیں ہے۔
صوبے کی برسر اقتدار پارٹی اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتی کہ اسی پارٹی کے ایک مذاکراتی عمل کے نتیجے میں ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجو یا تو افغانستان سے واپس لائے گئے یا سینکڑوں کو رہائی سمیت دیگر رعایتیں دی گئیں ۔ یہ بھی اس پارٹی اور اس کی حکومت کو ماننا پڑے گا کہ صوبائی حکومت کی سرے سے کوئی کاؤنٹر ٹیررازم پالیسی ہے ہی نہیں اور اس کے نتائج صوبے کے عوام اور فورسز کو بھگتنے پڑ رہے ہیں ۔ فوجی آپریشن کو کسی صورت ایک خوشگوار اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کے دوران عام لوگوں کی تکالیف کے علاوہ فورسز کو بھی جانوں کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں تاہم سب سے بڑا سوال اب بھی یہ ہے کہ تین برسوں سے جاری صورتحال سے نمٹنے کا آخر راستہ اور فارمولا ہی کیا ہے ؟ اس مسئلے کا اگر کوئی دوسرا حل ہے تو اپوزیشن پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے پارلیمنٹ میں وہ پیش کریں اور حکومتی اتحاد اور متعلقہ اداروں کو ایسے کسی مجوزہ فارمولے یا طریقہ کار پر پارلیمنٹ ہی کے فورم پر پوری قوم کے سامنے دلائل کی بنیاد پر پیش کرے ۔
جہاں تک اسد قیصر کی دلیل کا تعلق ہے کہ تو ان کو یہ یاددہانی کرائی جائے کہ سال 2009 کے دوران ملاکنڈ ڈویژن کے تین چار اضلاع پر طالبان نے عملاً قبضہ کرلیا تھا اور اس قبضے کو چھڑانا ایک آپریشن ہی کے ذریعے ممکن بنایا گیا تھا ۔ قبائلی علاقوں کے چار پانچ اضلاع بھی فورسز ، سیاسی جماعتوں اور عوام کے لیے نو گو ایریاز بن چکے تھے بلاشبہ وہاں کے حالات کو اب بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم پہلی والی صورتحال اب کے حالات میں بہت فرق ہے۔
اس تمام صورتحال کے تناظر ضرورت اس بات کی ہے کہ تلخ حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے اجتناب کیا جائے اور ملکی سلامتی اور صوبے کے مفادات کو درپیش چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے قومی اتفاق راۓ سے کوئی موثر لایحہ عمل اختیار کیا جائے ۔