ممتاز سیاستدان، فلسفی ، دانشور اور مجسمہ ساز غنی خان کی24 ویں برسی گزشتہ روز صوبہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں منائی گئی۔ جس کے دوران اس غیر معمولی شخصیت کے ادبی اور سیاسی خدمات کو خراج عقیدت پیش کی گئی اور ان کی ترقی پسندانہ نظریات کو بہت سے مسائل کا حل قرار دیا گیا۔ 14 19کو خان عبدالغفار خان )باچا خان( کےگھر پیدا ہونے والے غنی خان اس خطے کے ان چند سپوتوں یا شخصیات میں سے ایک ہے جنہوں نے تحریک آزادی میں اس صوبے کے نوجوانوں کی قیادت کی اورمختلف آعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور دوسرے اعزازات کے علاوہ برٹش انڈیا کی پارلیمانی سیاست یا اسمبلی کے سب سے کم عمر ترین پارلیمنٹرین کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ 1950 کے بعدغنی خان بوجوہ ان موجودہ سیاسی سرگرمیوں سے الگ ہوگئے اور ان کا یہ فیصلہ ان کے انتقال تک برقرار رہا ۔ اس تمام عرصے کے دوران انہوں نے اپنی تمام توجہ علم و ادب کے فروغ اور اپنی نایاب و منفرد تحریروں پر مرکوز رکھی اور اس کوشش کے نتیجے میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ” دی پٹھان” تحریر کی۔ بلکہ انہوں نے پشتوادب کو فانوس، پلوشے ،دہ پنجرے چغار اور لٹون جیسی شاعری تصانیف بھی دئے، جنہوں نے پشتو شاعری میں نئے موضوعات واسلوب اور افکار کو متعارف کرا کر تعلیم یافتہ طبقے اور نئی نسل کو روایتی شاعری سے نکال کر نئی سمتیں دکھائیں۔ ان کی انہی خدمات کے صلے میں سال 1980 میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ معاشرے میں ملائیت اور مذہبی طبقاتی منافرت کے سخت خلاف تھے اور اس طرز عمل کے دوران لمبے عرصے تک ان کے اپنے والد باچاخان اور بھائی ولی خان کے ساتھ بھی اختلاف رہے ۔ بعض حلقے ان کو جدید دور کے ایک مکمل صوفی کا نام بھی دیتے رہے۔