افغان طالبان کا 3 سالہ دورِ حکومت اور پاکستان
عقیل یوسفزئی
افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو قائم ہوئے 3 سال مکمل ہوگئے ہیں ۔ یہ حکومت 15 اگست 2021 کو سابق افغان صدر اشرف غنی کے غیر متوقع فرار اور سسٹم گرجانے کے بعد ہنگامی طور پر قایم ہوئی تھی حالانکہ طالبان سمیت سب کی رائے یہ تھی کہ کابل پر قبضہ کے لیے طالبان اور افغان فورسز کے درمیان ماضی کی طرح کافی لمبی جنگ لڑی جائے گی ۔ امریکہ اور اس کے اتحادی بھی صورتحال کو دیکھتے ہوئے رات کے اندھیرے میں باگرام ائیر بیس اور دیگر فوجی مراکز سے بھاگ گئے یوں کسی متوقع مزاحمت یا خونریزی کے بغیر کابل سمیت پورا ملک طالبان کے قبضے میں چلا گیا اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ برسرِ اقتدار آگئے۔
ابتداء میں اس عبوری حکومت کو بعض باہمی اختلافات اور داعش کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم جلد ہی ان مسائل پر قابو پایا گیا تاہم 15 اگست 2021 کے بعد پاکستان پر حملوں کی یلغار کی گئی کیونکہ افغان طالبان اور ان کی حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروپوں کی نہ صرف سرپرستی کرنے لگی بلکہ امریکہ کے چھوڑے گئے جدید اسلحہ کا ایک خاطر خواہ حصہ ان کے حصے میں آیا اور اس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان پر ریکارڈ حملوں کا آغاز کیا گیا ۔ پاکستان نے افغانستان کی عبوری حکومت پر ہر ممکن دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور یا قائل کرنا چاہا مگر کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ اس عرصے میں عمران خان کے دور حکومت میں افغان طالبان کی خواہش پر ایک مذاکراتی عمل کا آغاز بھی کیا گیا جو تقریباً ایک سال تک جاری رہا مگر اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا اور جب پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے چارج سنبھال لیا تو اس مذاکراتی عمل کا خاتمہ کرکے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا میں انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز کا آغاز کیا گیا ۔ اس دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اور تلخی میں مزید اضافہ ہوگیا جو کہ تاحال جاری ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں جب پاکستان میں سیاسی استحکام آئے گا تو پاکستان اس تمام صورتحال کے تناظر میں افغانستان اور ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف مزید اقدامات کرے گا۔
افغانستان کے اندر طالبان نے بظاہر تو امن قائم کردیا ہے تاہم ملک کا ادارہ جاتی سسٹم ، معاشی حالات اور انسانی حقوق کے معاملات درست نہیں ہوپارہے اور عالمی برادری کو اس بات کی تشویش لاحق ہے کہ وہاں نہ صرف القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسے گروپوں کی سرکاری سرپرستی جاری ہے اور خطے بلخصوص پاکستان کی سیکورٹی چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے بلکہ افغان عوام کو بھی شدید نوعیت کی سیاسی اور معاشی مسایل کا سامنا ہے۔