افرادکے ہاتھوں میں ہے
وصال محمد خان
آج پوری پاکستانی قوم 77ویں یوم آزادی منارہی ہے۔ اس دن پاکستان نے نہ صرف انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کی تھی بلکہ ہندو کی جانب سے غلام بنانے کے منصوبے کو بھی ناکام بنا دیا تھا یعنی 14 اگست 1947ء کو پاکستانی قوم نے ایک غاصب سے چھٹکارا حاصل کیا تھا جبکہ دوسرا جو اسے غلام بنانے کا خواہاں تھا اسے بھی منہ کی کھانی پڑی تھی۔ ہماری قوم نے بیک وقت دو دشمنوں کو شکست دے کر یہ آزاد وطن حاصل کیا تھا۔
صد افسوس کہ ہم بہت جلد پٹڑی سے اتر گئے اور ملک کو جنت ارضی بنانے کی بجائے اسے دھرتی کے جہنم میں تبدیل کیا۔ آج ہمیں یقیناً جشن آزادی منانے کا حق حاصل ہے مگر ہم نے جس طرح تمام شعبوں کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اسی طرح یوم آزادی کو بھی الٹی سیدھی حرکات کا مجموعہ بنا دیا ہے۔ ہمارے نوجوان یوم آزادی پر ون وہیلنگ کر کے اپنی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ خود سمیت دوسروں کی زندگیاں چھیننے کا سبب بنتے ہیں۔
مذہبی تہواروں یعنی عیدین پر ہمارے ہاں ہزاروں حادثات ہوتے ہیں جن میں سینکڑوں افراد جان سے جاتے ہیں جبکہ ہزاروں زخمی اور معذور ہوتے ہیں۔ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے کو ہم نے خوشی کا نام دے دیا ہے۔ اس ملک کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ یہ امن کا گہوارہ ہوگا اور یہاں کے باشندوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہوگی مگر ہم آزادی غلط طریقے سے منا کر زندگی کا حق چھیننے میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
ہم نے آزادی تو حاصل کر لی مگر اس کے ثمرات سے بہرہ ور نہ ہو سکے۔ آج ستتر برس گزر جانے کے باوجود ہم اس ملک کو بہتر طرز حکمرانی دینے میں ناکام ہیں۔ ہمارا طرز سیاست حکومت گرانا اور خود مسند اقتدار تک رسائی ہے۔ عدم برداشت، انتہا پسندی، بدعنوانی، اقربا پروری، ضد، انا، ہٹ دھرمی، کام چوری، رشوت خوری اور سب سے بڑھ کر اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے دوسروں کا حق چھیننا بلکہ دوسروں کو کچل کر آگے بڑھنا ہمارا کلچر بن چکا ہے۔
کلمہ کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک کو ہم نے کیا سے کیا بنا دیا۔ کوئی گروہ دین کے نام پر، کوئی مسلک اور فرقے کے نام پر خون بہانے کا مکروہ کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ کبھی کوئی سیاسی گروہ سیاست کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بناتا ہے تو کبھی کوئی حقیقی آزادی کا چورن بیچ کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا دھندہ اپنا لیتا ہے۔
آج اپنی ستترویں یومِ آزادی پر ہم گوناگوں مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں۔ کوئی نام نہاد سیاستدان ہمیں امریکہ سے آزادی کا لولی پاپ دے کر ورغلا رہا ہے تو کوئی اسلام کے نفاذ پر ہمارا استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔ اندرونی طور پر ان مفاد پرست سیاستدانوں اور نام نہاد مذہبی راہنماؤں نے پورے ملک کو ایک کنفیوژن میں مبتلا کر رکھا ہے تو بیرونی طور پر ہمارے دشمن اس تاک میں ہیں کہ کب ہم آپس میں دست و گریباں ہوں گے، کب ہم خود کو اندر سے اس قدر کھوکھلا کریں گے کہ انہیں مداخلت کا موقع ملے اور وہ اپنی دیرینہ آرزوؤں کی تکمیل کے لیے حملہ آور ہوں۔
اس ملک کی آزادی بہت سے بدخواہوں کی آنکھ میں چبھتی ہے اور لاتعداد گدھ اس انتظار میں ہیں کہ ہم کوئی ایسی غلطی کریں جس کا فائدہ اٹھا کر وہ یہ آزادی چھین لیں۔ اس آزادی کی حفاظت کے لیے آج بھی ہماری فوج، پولیس، سیکیورٹی ایجنسیاں اور عام لوگ اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔
ہم جن دفاتر، مساجد، حجروں، دکانوں اور مکانوں میں تشریف فرما ہیں ان کی بنیادوں میں ان گنت وطن کے رکھوالوں کا خون ہے۔ یہ لمبی چھوڑی عمارتیں اسی خون کی بدولت قائم ہیں۔ ہمیں ان ہزاروں فرزندان وطن کے خون کا لاج رکھنا ہوگا۔ ان سرفروشوں نے اپنا خون اس لیے نہیں دیا کہ ہمیں کوئی بھی سیاسی راہنما اپنے مکروہ عزائم کے لیے استعمال کر لے۔ ہم کوئی بھیڑ بکریاں نہیں کہ کوئی بھی ہمیں کسی بھی جانب ہانک دے۔
جو آزادی ہم نے حاصل کی ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے ان گنت قربانیاں دی ہیں، ہماری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عصمتیں لٹائی ہیں، ہمارے ان گنت گبرو جوانوں نے اپنے خون اور سروں کے نذرانے پیش کیے ہیں، یہی حقیقی آزادی ہے۔
کوئی اگر ہمیں حقیقی آزادی کے نام پر ورغلا رہا ہے تو ہمیں ان عناصر کے جھانسے سے بچنا ہوگا۔ آزادی ہم 14 اگست 1947ء کو حاصل کر چکے ہیں اور یہی حقیقی آزادی ہے۔ اگر ہم آج حقیقی آزادی کے نعرے لگائیں تو اس کا واضح مطلب یہی ہوگا کہ جن ہزاروں افراد نے اپنی جانیں قربان کیں وہ کم فہم اور نادان تھے جبکہ ہم عقل کل اور دانش سے بھرپور ہیں؟
آزادی ہم حاصل کر چکے ہیں، اب ہماری ذمہ داری اس کی حفاظت ہے۔ یہ حفاظت ہم سوشل میڈیا پر غیر حقیقت پسندانہ ٹرینڈز سے نہیں کر سکتے۔ کسی سیاسی راہنما کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اپنے ہی املاک پر حملہ آور ہو کر بھی آزادی کی حفاظت ممکن نہیں۔
ہمارے بزرگوں، ماؤں، بہنوں اور بھائیوں نے اپنے سروں اور عصمتوں کی قربانی دے کر جو آزادی حاصل کی ہے اس کی حفاظت کا تقاضا ہے کہ ہم آج یوم آزادی کے موقع پر سر بسجود ہو کر خالق کائنات کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں انگریز کی غلامی جیسی لعنت سے چھٹکارا عطا فرمایا۔
آج ہم میں سے ہر فرد خود سے یہ عہد کرے کہ اس نے بے ایمانی، چوری، رشوت، اقربا پروری، بدعنوانی اور کام چوری سے باز آنا ہے، حقیقی مسلمان اور محب وطن پاکستانی بننا ہے۔ اپنی وطن سے محبت مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔
ہم نے اپنے وطن سے محبت کرنی ہے، غیر مشروط محبت۔ اپنے ملک کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے ہر فرد نے اپنا کردار ایمانداری سے ادا کرنا ہے۔ ملکی حالات خراب ہیں یہ ایک حقیقت ہے مگر اس حقیقت کو بھی جھٹلانا ممکن نہیں کہ کئی اقوام کو ہم سے زیادہ خراب حالات کا سامنا رہا ہے مگر عزم و ہمت، حوصلے، قوت ایمانی اور حب الوطنی سے یہ اقوام ان حالات کو شکست دے کر دنیا میں اونچا مقام حاصل کر چکی ہیں۔
ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں بس یہی ایک کمی ہے کہ ہم آزادی کی حقیقی روح سے نا آشنا ہیں۔ ہم میں سے ہر فرد نے اپنی ذمہ داری پہچاننی ہے اور اپنے ملک کے لیے خلوص نیت سے کام کرنا ہے۔ آزادی برقرار رکھنا، اسے قائم رکھنا اور دنیا میں اونچا مقام حاصل کرنا سیاسی نعروں، نفرت آمیز تقریروں اور سوشل میڈیا ٹرینڈز سے ممکن نہیں بلکہ ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔
ہر فرد ہوش کے ناخن لے گا تو آزادی نہ صرف قائم رہے گی بلکہ اس کے ثمرات بھی حاصل ہوں گے۔
“افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر۔۔
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا۔”