جنرل فیض حمیدکی گرفتاری

جنرل فیض حمیدکی گرفتاری

وصال محمد خان

سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو گرفتار کر لیا گیا۔ جو لوگ پاکستانی سیاست پر نظر رکھتے ہیں اور ان سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جنرل فیض حمید کی کیا حیثیت ہے، وہ فوج میں کن اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ان مناصب کا انہوں نے کیسا استعمال کیا ہے۔ یہ باتیں آج سے بہت پہلے زبان زد عام تھیں۔ انہوں نے عمران خان کی حکومت بنانے، اسے چلانے اور قائم رکھنے کیلئے کئی غیر آئینی اور اپنے منصب کے منافی اقدامات کیے جن پر بہت سے حلقوں کی جانب سے انگشت نمائی ہوئی۔

ان کے متعدد اقدامات سے پاک فوج بطورِ ادارہ بدنام ہوئی حالانکہ انہوں نے جو غیر قانونی کام کیے وہ ان کے ذاتی افعال تھے، مگر ملک کے کچھ سیاسی حلقوں نے ان کا ملبہ پوری فوج پر ڈالنے کی کوشش کی۔ فوج بارہا کہہ چکی ہے کہ وہ بطورِ ادارہ کسی غیر آئینی امر میں ملوث نہیں ہے، ہاں کچھ افراد ذاتی حیثیت میں ضرور ناپسندیدہ امور انجام دیتے ہونگے اور ایسے افراد کے لیے فوج میں خود احتسابی کا ایک مربوط نظام موجود ہے۔ اسی نظام کے طفیل آج فوج کا ایک اہم سابق عہدیدار احتساب کے شکنجے میں کسا گیا ہے۔

جنرل فیض پر اگرچہ الزامات تو بہت سے ہیں، مگر فی الحال انہیں جن الزامات کے تحت کورٹ مارشل کارروائی کا سامنا ہے وہ ٹاپ سٹی کیس ہے جس کے مالک نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے انہیں وزارت دفاع یا سول کورٹ سے رجوع کی ہدایت کی تھی۔ پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے اس معاملے پر جو پریس ریلیز سامنے آیا ہے اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کو تحویل میں لے لیا گیا ہے، ان کے خلاف انضباطی کارروائی اور کورٹ مارشل کا آغاز کر دیا گیا ہے، ٹاپ سٹی پروجیکٹ میں ان کے کردار اور متعدد بے ضابطگیوں سمیت انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا ہے بلکہ یہ بات وضاحت سے کی گئی ہے کہ آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیاں ثابت ہو چکی ہیں۔

جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری اور ان کا کورٹ مارشل کوئی معمولی واقعہ نہیں، اس کے فوجی، سیاسی اور قومی معاملات پر دور رس اثرات مرتب ہونگے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی حلقے اس بات کا برملا مطالبہ کر رہے تھے کہ فیض حمید نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا ہے اس لیے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ 9 مئی کے حوالے سے فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی ان کا ہاتھ کارفرما رہا۔ وہ سیاسی طور پر بھی خاصے متنازعہ ہو چکے تھے۔ ملک کے بڑے سیاسی راہنما سیاست میں ان کی بے جا مداخلت اور عمران خان کو غیر قانونی اور غیر آئینی فیور دینے پر کھلے انداز میں انہیں ہدف تنقید بناتے رہے۔ اور ان کے احتساب کا مطالبہ خاصی دیر سے ہو رہا تھا، مگر کسی کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ انہیں واقعی گرفتار بھی کیا جائے گا اور ان کا کورٹ مارشل ہوگا۔

اس گرفتاری سے پاک فوج نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اس کیلئے پہلی ترجیح پاکستان ہے اور جو بھی اس ملک کی جانب میلی آنکھ سے دیکھے گا اسے کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ پاک فوج چونکہ 2022ء میں سیاست سے باقاعدہ کنارہ کشی کا برملا اعلان کر چکی ہے اور اپنی ساری توجہ قومی سلامتی کے معاملات پر مبذول کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ اس سلسلے میں موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے فوج کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں تک محدود کرنے کے فیصلے پر سختی سے عمل کیا ہے جو خراج تحسین کا مستحق ہے۔ انہوں نے اپنے گھر سے ہی احتساب کا آغاز کر دیا ہے۔

اس ادارے کے جن ذمہ داروں نے ملک اور فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی، پاک فوج کو سیاست زدہ کیا، اسے کسی کو اقتدار دینے اور چھیننے کیلئے استعمال کیا، ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کیا، دوران ملازمت پی ٹی آئی کیلئے سہولت کاری کی، میانوالی بیس، کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور دیگر فوجی تنصیبات پر حملے اندرونی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہ تھے۔ جنرل فیض حمید نے جو غیر قانونی امور انجام دیے ہیں اس کی سزا انہیں مل کر رہے گی۔ اور یہ ادارہ جاتی خود احتسابی عمل کے تحت ہو رہا ہے۔

اب ملک کے تمام شعبوں کو فوج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود احتسابی کے عمل کا آغاز کرنا ہوگا اور اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کو ڈھونڈ کر ان کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی۔ ملک میں جو کچھ ہوا یا ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا، اس کیلئے اکیلے فیض حمید ذمہ دار نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔ انہیں فوج کے اندر سے جو سہولت کاری دستیاب تھی اسے فوج دیکھے گی، کیونکہ جب فیض حمید کو نہیں چھوڑا گیا تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔

مگر اسی نقش قدم پر چل کر عدلیہ اور مقننہ کو بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ ایک فیض حمید کی گرفتاری اور سزا سے وہ مقاصد پورے نہیں ہونگے جن مقاصد کیلئے فوج نے یہ بڑا قدم لیا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اب دیگر تمام شعبہ جات بھی اپنی منجھی تلے ڈانگ پھیریں، کیونکہ احتسابی عمل کے بغیر ملک کا آگے بڑھنا ممکن نہیں۔

اب ان لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے جو سیاست کی آڑ میں ملک اور فوج کی بدنامی کا باعث بنے یا بن رہے ہیں، جو سیاستدان فوج اور اس کی قیادت پر بے جا اور لغو الزام تراشی کرتے ہیں اور انہوں نے لغو الزام تراشی کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے، ان کا بھی احتساب ہونا ضروری ہے۔ یہاں کچھ سیاستدانوں نے فوج (جو کہ قومی سلامتی کی ضامن ہے) پر بے جا تنقید اور اسے سیاست زدہ کرنے کی ناروا روش اپنائی ہے، اس روش کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ اور فوج کو خواہ مخواہ سیاست میں ملوث کرکے اس کے خلاف سوشل میڈیا ٹرینڈز چلانے والوں کو قرار واقعی سزا دینے کی جتنی ضرورت آج محسوس کی جا رہی ہے اس سے قبل شاید نہ تھی۔

اب چونکہ فوج نے اپنا اندرونی خود احتسابی کا عمل متحرک کر دیا ہے، اس لئے حکومت کو بھی خواب خرگوش سے جاگنا ہوگا اور تمام ایسے سیاسی راہنماؤں کو قانون کے شکنجے میں لانا ہوگا جو ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور جو خود کو ملکی قانون سے ماورا مخلوق سمجھتے ہیں۔ اس سے قبل بھی ان گنت فوجی افسران کے خلاف خود احتسابی کے نتیجے میں کارروائیاں ہو چکی ہیں، مگر جنرل فیض حمید کی گرفتاری سے ملک میں جس نئی صبح کا آغاز ہوا ہے یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket