یہ کون لوگ ہیں؟
عقیل یوسفزئی
یہ بات بہت افسوس ناک ہے کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا میں بعض سیاسی اور جہادی قوتوں کی جانب سے برداشت پر مشتمل ماضی کی ہماری شاندار روایات کے برعکس عدم برداشت، تشدد اور بد زبانی پر مبنی رویوں کو فروغ دیا گیا اور آج حالت یہ ہوگئ ہے کوئی بھی دوسرے کی بات یا دلیل ماننے کو تیار نہیں ہے. اس پر ستم یہ کہ مختلف سیاسی قوتیں نئی نسل کو ریاست، سیاست اور مثبت سوچ سے متنفر کرکے منفی اور مزاحمتی راستہ دکھانے کی شعوری کوششیں کررہی ہیں.
پاکستان کے اس جنگ ذدہ خطے کو عالمی پراکسیز اور بدامنی کے علاوہ سماجی اور اقتصادی بدحالی کے چیلنجز کا بھی سامنا ہے. اپر سے رہی سہی کسر ایک پڑوسی اسلامی ملک کے بعض قوم پرست حلقے پوری کررہے ہیں اور اس کی ایک نئی مثال ہم نے فرانس میں پاکستان کی ایک سابق عسکری شخصیت کے ساتھ ایک “شخص” کی عجیب و غریب گفتگو کی صورت میں دیکھ لی جس پر شدید تنقید اور ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے.
9 مئ کو پختون خوا میں ایک مخصوص پارٹی نے جس طریقے سے توڑ پھوڑ کرکے قومی تنصیبات کو نشانہ بنایا اس سے زیادہ بدترین مثال اس صوبے میں اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملتی مگر اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ ان واقعات کی بھی کھل کر مذمت نہیں کررہے اور “اگر مگر” سے کام لے رہے ہیں. دوسری جانب کوشش کی جارہی ہے کہ تشدد پر مبنی سیاسی رویوں کا دفاع کیا جائے اور منفی پروپیگنڈا کے ذریعے نئی نسل کو نفرت کی راہ پر گامزن کیا جائے.
اس صوبے کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہاں 1947 میں آزادی کے حتمی مراحل کے دوران جب پورا برصغیر ہنگاموں اور لوٹ مار کی لپیٹ میں آگیا تو پشاور کے مسلم باسیوں نے سکھوں اور ہندوؤں کے گھروں اور املاک کی چوکیداری کی. دہشتگردی کے ادوار میں بھی قومی شناخت کے حامل مراکز کو اس طریقے سے نشانہ نہیں بنایا گیا جس طرح 9 اور 10 مئ کے دوران نشانہ بنایا گیا.
جہاں تک ایک پڑوسی اسلامی ملک کے بعض سیاسی حلقوں کے اجتماعی رویہ کا تعلق ہے وہ کوئی نئی بات نہیں تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس بات کا یہ حلقے اب بھی اعتراف نہیں کرتے کہ سیاسی اور ریاستی تعلقات اور گلے شکوے سے قطع نظر اس ملک کے لوگوں پر جب بھی تکلیف آئی پاکستان نے نہ صرف ڈٹ کر تعاون کیا اور لاکھوں باشندوں کو پناہ دی بلکہ ان کے تقریباً ہر قابل ذکر لیڈر یا مشر کو پاکستان میں گھر بنانے اور کاروبار کرنے کی سہولیات بھی دیں.
افغانستان میں امریکی انخلاء اور نئی عبوری حکومت کے قیام کے بعد جس ایک ملک میں سب سے ذیادہ افغان آئے وہ پاکستان تھا. یو این او کی ایک رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں تقریباً 9 لاکھ افغان پاکستان منتقل ہوگئے ہیں. اس کے باوجود اگر عام افغانیوں کے مسائل سے بے خبر اور لاتعلق باہر بھیٹے بعض عناصر سیاسی منافرت میں پاکستان کے خلاف اس طرح کا رویہ اپناتے ہیں تو اس پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے.