خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی صوبائی کابینہ میں صدر سمیت کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپور، جو پارٹی کے صوبائی صدر بھی تھے، ان سے یہ عہدہ لے کر این اے 9 ملاکنڈ سے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر کو سونپ دیا گیا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معمول کی تبدیلی ہے اور کسی اندرونی اختلاف کا نتیجہ نہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خیبرپختونخوا میں جب سے تحریک انصاف کو پذیرائی ملنی شروع ہوئی ہے، تب سے ہر دور میں پارٹی کے اندر دو سے زیادہ گروپس سرگرم عمل رہے ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ خود کو نظریاتی کہلوانے پر بضد ہے اور دوسرا گروپ اقتدار کے مزے لوٹنے والا گروپ کہلاتا تھا یا اب بھی ہے۔ ابتدا میں پرویز خٹک کے خلاف پارٹی کے اندر محاذ گرم رہتا تھا۔ عاطف خان، اسد قیصر وغیرہ خود کو نظریاتی سمجھتے تھے اور پرویز خٹک کو چڑھتے سورج کا بجاری قرار دیا جاتا تھا۔ اس لیے پرویز خٹک کی پارٹی میں شمولیت کے موقع پر نظریاتی کارکنوں نے بنی گالہ میں احتجاج کیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ پرویز خٹک کو پارٹی میں شامل نہ کیا جائے۔ اگر شمولیت ضروری ہو تو انہیں پارٹی عہدہ نہ دیا جائے۔ مگر عمران خان نے نہ صرف پرویز خٹک کو شامل کیا بلکہ انہیں صوبائی صدارت کے انتخاب میں اسد قیصر سے شکست ہوئی تو مرکزی جنرل سیکرٹری کا عہدہ دے دیا گیا۔ عمران خان حکومت کی رخصتی پر انہیں صوبائی صدارت عطا کی گئی۔
تحریک انصاف کا چونکہ یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ وہ صدائیں تو جمہوریت کی لگاتی ہے مگر پارٹی کے اندر جمہوریت نام کی چیز قابل برداشت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات نامزدگیوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ 2022ء میں عمران خان حکومت کی رخصتی پر پرویز خٹک کو صوبائی صدر نامزد کیا گیا جس سے ان کی دیرینہ آرزو کی تکمیل ہوئی۔ پرویز خٹک ابتدا سے ہی صوبائی صدارت کے خواہشمند تھے مگر 9 مئی 2023ء کے پرتشدد واقعات کے بعد پرویز خٹک نے پارٹی سے راہیں جدا کیں تو علی امین گنڈاپور کو صوبائی صدر نامزد کیا گیا۔ 2024ء انتخابات میں کامیابی کے بعد انہیں وزارت اعلیٰ کا تاج بھی پہنا دیا گیا۔ تقریباً ایک برس سے علی امین گنڈاپور صوبائی صدارت اور وزارت اعلیٰ دونوں عہدے پاس رکھے ہوئے تھے۔ دونوں عہدوں سے انصاف کرنا چونکہ ممکن نہ تھا، انہیں سیاسی اور احتجاجوں سمیت وزارت اعلیٰ کی دوہری ذمہ داریاں نبھانا مشکل ہو رہا تھا۔ اگر کام بانٹنے کی نیت سے انہیں ہٹایا جاتا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ سنجیدہ و فہمیدہ حلقے خاصی دیر سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ علی امین کو حکومتی امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مگر پارٹی قیادت چونکہ من مانی پر بضد رہتی ہے، اس لیے یہ صائب مشورہ قبول نہیں کیا گیا۔ اب اچانک صوبائی صدارت ان سے لے کر جنید اکبر کو دے دی گئی ہے۔
جنید اکبر پارٹی کے نظریاتی کارکن اور راہنما سمجھے جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل صوبائی وزیر شکیل خان نے صوبائی وزرا اور حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے تو علی امین نے انہیں وزارت سے ہٹا دیا جس پر عاطف خان اور جنید اکبر نے شکیل خان کے حق میں آواز بلند کی اور کہا کہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے کو ہی وزارت سے ہٹانا قرین انصاف نہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ پارٹی کا ایک بڑا دھڑا وزیراعلیٰ کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ مگر چونکہ علی امین کی عمران خان تک رسائی آسان تھی اور وہ ان کی منشا کے مطابق چل رہے تھے، اس لیے انہیں دونوں عہدوں پر فائز رکھا گیا تھا۔ مگر جب بشریٰ بی بی نے رہائی کے بعد پشاور میں رہائش اختیار کی اور 26 نومبر کو اسلام آباد ڈی چوک کا پروگرام بنا دیا تو بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔ بشریٰ بی بی ڈی چوک میں احتجاج پر بضد تھیں جبکہ گنڈاپور ریڈ زون میں داخلے کے خلاف تھے۔ اس دوران وہاں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے پرتشدد احتجاجیوں کے خلاف کارروائی کی گئی جہاں سے حیرت انگیز طور پر بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور رات کی تاریکی میں مانسہرہ پہنچ گئے۔ بعدازاں بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ رات بارہ بجے تک ڈی چوک میں موجود رہیں مگر علی امین کے مطابق انہیں نو دس بجے وہاں سے نکال کر بعدازاں مانسہرہ پہنچا دیا گیا تھا۔
26 نومبر احتجاج کی تیاریوں کے دوران پارٹی کے نظریاتی گروپ نے بشریٰ بی بی سے رابطے استوار کیے۔ اسلام آباد احتجاج کے لیے بشریٰ بی بی نے مارچ کی قیادت عاطف خان اور اسد قیصر کے سپرد کی تھی اور انہوں نے عاطف خان سے کئی ملاقاتیں بھی کیں جس سے چہ مہ گوئیاں شروع ہوئیں کہ نہ صرف صوبائی قیادت بلکہ حکومتی عہدوں میں بھی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔ مگر عارضی اقدامات کے تحت اس شورش کو دبایا جاتا رہا۔ اب جبکہ بشریٰ بی بی کو بھی 190 ملین پاؤنڈز کیس میں سات سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے، بعض معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں بشریٰ بی بی کی خواہش پر عمل میں آئی ہیں اور عین ممکن ہے کہ علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائیں۔ اگرچہ عاطف خان قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور وہ وزارت اعلیٰ کے اہل نہیں، مگر پارٹی ذرائع کے مطابق انہیں کسی صوبائی حلقے سے منتخب کروا کر وزارت اعلیٰ کا عہدہ سونپا جا سکتا ہے۔
ایسا ہونے کی صورت میں پارٹی مزید کئی گروپس میں بٹ سکتی ہے۔ صوبائی حکومت کی غیرتسلی بخش کارکردگی کے بل بوتے صوبے میں کوئی ضمنی الیکشن جیتنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ باجوڑ کی صوبائی نشست پر ضمنی انتخاب اے این پی جیت چکی ہے۔ ان حالات میں کسی نشست سے عاطف خان کو کامیاب کروانا انتہائی مشکل کام ہوگا، خصوصاً اس صورت میں جب وزیراعلیٰ گنڈاپور بھی عہدے پر فائز ہوں۔ عاطف خان 2018ء میں بھی پرویز خٹک کی مخالفت کے باعث وزارت اعلیٰ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ انہیں محمود خان کابینہ میں سینئر وزارت پر ٹرخایا گیا تھا مگر پرویز خٹک کی سازشوں کے نتیجے میں انہیں شکیل خان اور شہرام ترکئی سمیت وزارت سے برطرف کر دیا گیا۔ اب ایک بار پھر وزارت اعلیٰ کی ہما ان کے سر بیٹھنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ کسی دیگر فرد کو وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ صوبائی صدارت کی تبدیلی کو نائب کپتان کی تبدیلی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اب دیکھیں، پی ٹی آئی میں کی گئی تبدیلیاں پارٹی کے لیے سودمند ثابت ہوتی ہیں یا پھر اندرونی گروپ بندی میں اضافے کا موجب بنتی ہیں۔ اس کا فیصلہ مستقبل پر چھوڑ دیتے ہیں۔
وصال محمد خان