کرکٹ ٹیم اورمیجرسرجری
وصال محمد خان
امریکہ اورویسٹ انڈیز میں مشترکہ طور پر ٹی ٹوینٹی فارمیٹ کا کرکٹ ورلڈکپ جاری ہے۔ ابتدائی راؤنڈ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی حسب سابق ناقص رہی اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ٹیم پاکستان سپرایٹ مرحلے کے لئے کوالیفائی کرنے میں کامیاب نہ ہو۔ یہ انتہائی بدقسمتی ہوگی کیونکہ پاکستانی ٹیم دنیائے کرکٹ کی ایک مضبوط ٹیم سمجھی جاتی ہے جس نے آئی سی سی کے تحت منعقد ہونے والے تقریباً ہر ایونٹ میں نہ صرف شرکت کی ہے بلکہ تمام فارمیٹس کے ٹورنامنٹس میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرچکی ہے۔ ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی فارمیٹ کی ایک ایک بار چیمپئن اور طویل فارمیٹ ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم پاکستان کی بہترین کارکردگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
پاکستان میں چونکہ کرکٹ کے کھیل کو شوق سے دیکھا اور کھیلا جاتا ہے اس لئے اس ملک نے دنیائے کرکٹ کو عظیم بلے باز، باؤلرز اور آل راؤنڈرز مہیا کئے ہیں جن کا ایک زمانہ معترف ہے۔ مگر حالیہ عرصے میں اس ٹیم کی کارکردگی زوال پذیر ہے۔ گزشتہ دو تین سال سے مسلسل یہ ٹیم اپنی سمت بھول چکی ہے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ کبھی یہ افغانستان جیسی نوآموز ٹیم سے ہار جاتی ہے تو کبھی آئرلینڈ جیسی نئی ٹیم اور نیوزی لینڈ کی بچوں والی ٹیم سے ہوم گراؤنڈ پر شکست کھا جاتی ہے۔
جب ٹیم جیت رہی ہوتی ہے تو اس کی خامیوں پر پردہ پڑا رہتا ہے اور شائقین سمیت ماہرین بھی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں۔ مگر جب ٹیم ہارتی ہے تو چاروں جانب سے شائقین، ماہرین اور کرکٹ کے کرتا دھرتا تیز چھریوں سے اس کی پوسٹمارٹم پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ حالیہ ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم امریکہ جیسی نوآموز ٹیم سے اپنا پہلا میچ ہار گئی جس پر اسے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر چونکہ یہ پہلا میچ تھا اور اگلے میچز سے امیدیں وابستہ تھیں کہ ٹیم اپنا ردھم حاصل کر لے گی۔
اگلا میچ چونکہ روایتی حریف بھارت کے خلاف تھا اور بھارت سے ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کا ریکارڈ خاصا برا ہے۔ امریکہ سے ہارنے کے بعد شائقین کرکٹ اور ماہرین سمجھ گئے تھے کہ پاکستانی ٹیم بڑے ٹورنامنٹس کو جیتنے کی دم خم سے عاری ہے۔ خدشات کے برخلاف پاکستانی باؤلرز نے بھارت جیسی مضبوط ٹیم کو 19 اوورز میں 119 رنز تک محدود رکھا جس کا مطلب یہی ہے کہ ٹیم کی باؤلنگ نے اپنا فرض پورا کر لیا۔ اب بیٹرز کی باری تھی کہ وہ تحمل، تدبر اور مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ہدف حاصل کر لیتے، جو نہ کیا جا سکا اور ٹیم مقررہ اوورز میں 113 رنز تک محدود رہی۔
سکور اگرچہ خاصا کم تھا مگر امریکہ کی پچز بیٹسمینوں کیلئے سازگار نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماسوائے چند میچز کے اکثر لو سکورنگ میچ رہے۔ پاکستانی ٹیم کے پاس چونکہ اس قسم کی پچز کیلئے سپیشلسٹ بیٹرز موجود نہیں تھے بلکہ یہ مسئلہ تمام ایشئن ٹیموں کو درپیش رہتا ہے۔ اس لئے تو پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ریکارڈ ہولڈر اور سورما بیٹرز آسٹریلیا، انگلینڈ یا نیوزی لینڈ میں بھیگی بلیاں بن جاتے ہیں۔ مگر یہ سانحہ ہمارے ساتھ اکثر ہوتا ہے۔
بھارتی ٹیم نے حالیہ ورلڈکپ میں 120 رنز کا ہدف دیا تو میرے سمیت پاکستانی شائقین کرکٹ کی دلی آرزو تھی کہ ہمارے سورما یہ ہدف بارہ پندرہ اوورز میں بآسانی حاصل کر لیں۔ مگر جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے، پچ پاکستانی بیٹرز کے لئے سازگار نہیں تھی حالانکہ اس سے قبل پاکستان آئرلینڈ اور انگلینڈ کی پچز پر کھیلنے کی پریکٹس حاصل کر چکی تھی۔ پچ اگرچہ مشکل تھی مگر حکمت عملی سے کھیل کر ہدف حاصل کیا جا سکتا تھا مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔
بھارتی ٹیم کی فیلڈنگ اور باؤلنگ بہترین ہے جس کے سامنے پاکستانی بیٹرز غلطیاں کرکے آؤٹ ہوتے رہے۔ میچ ہارنے پر حسب معمول شائقین کرکٹ، سابق کرکٹرز اور ماہرین کی جانب سے پاکستانی ٹیم کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے میجر سرجری کا عندیہ دیا ہے۔ میجر سرجری کے دعوے بے بنیاد لگ رہے ہیں اگر اس سے مراد ٹیم کے آٹھ دس کھلاڑی فارغ کرنا یا کپتان کی تبدیلی ہے تو یہ بیکار مشق پہلے بھی کئی بار ہو چکی ہے جس کے بہترین نتائج کی بجائے برے نتیجے سامنے آئے ہیں اور ہر سرجری کے بعد چاروناچار ریورس گیئر لگانا پڑا ہے۔
میجر سرجری کے نام پر اکھاڑ پچھاڑ سے گریز کیا جائے۔ ملک میں دستیاب یہی بہترین کھلاڑی تھے جنہیں منتخب کرنے پر شادیانے بجائے گئے تھے جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ہمارے پاس جس ٹیلنٹ کی فراوانی کا راگ الاپا جا رہا ہے وہ بہترین ٹیلنٹ یہی ہے جو پاکستان کی نمائندگی کا فریضہ ادا کر رہا ہے۔ ہاں اگر کھلاڑیوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتی ہے، ضد، انا اور جان بوجھ کر ہار میں کردار ادا کیا ہے یا کوئی کھلاڑی کسی گروپ بندی میں ملوث رہا ہے پھر تو اسے نہ صرف ٹیم سے نکال باہر کرنا چاہئے بلکہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت سے حالیہ شکست کے بعد اتنی گرد اڑ چکی ہے جس میں کوئی چیز واضح نظر نہیں آ رہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کرکٹ بورڈ جان بوجھ کر ہارنے جیسے الزامات کی شفاف تحقیقات کرے اور اگر یہ درست ثابت ہوتے ہیں تو ذمہ دار کوئی بھی فرد کسی رعایت کا مستحق نہیں۔ پاکستانی ٹیم ٹی ٹوینٹی فارمیٹ کی ایک بہترین ٹیم ہے اور اس نے اس فارمیٹ میں دنیائے کرکٹ کے ہر پہلوان کو دھول چٹائی ہے مگر اس مرتبہ ٹیم کو اس فارمیٹ کی سب سے بڑے ٹورنامنٹ میں بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر ملک کے سفیر ہوتے ہیں جن کی ایک ایک حرکت کو بغور دیکھا اور نوٹ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ محض اپنی کپتانی کی خواہش یا ضد اور انا کے لئے ملک کی ساکھ کو داؤ پر لگائیں تو ملک کو بھی انہیں نہ صرف اپنی نمائندگی سے محروم کرنا چاہئے بلکہ دی گئی تمام مراعات واپس لے کر انہیں نشان عبرت بنانا چاہئے۔ ہم ہر ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی کے بعد میجر سرجری اور نئے ٹیلنٹ کو موقع دینے کی تکرار سنتے ہیں، اب بھی یہی کچھ سننے کو مل رہا ہے۔ حالانکہ موجودہ ٹیم کے بیشتر کھلاڑی نئے اور ناتجربہ کار ہی ہیں، معدودے چند کھلاڑی 100 سے زائد میچز کھیلنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
دنیا کی ہر ٹیم سینئر اور جونئیرز پر مشتمل ہوتی ہے۔ نہ ہی کسی ٹیم کے تمام کھلاڑی تجربہ کار بابے ہوتے ہیں اور نہ ہی تمام کھلاڑی نوجوان ہوتے ہیں۔ تجربہ کار اور نوجوانوں کے کمبی نیشن سے ٹیمیں بنتی ہیں۔ موجودہ ٹیم بھی زیادہ بری نہیں، برے چند کھلاڑیوں کے روئیے ہیں جو ملک کیلئے جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر یہ اپنے روئیوں میں تبدیلی لائیں، اپنی ضد و انا کو پس پشت ڈالیں اور ٹیم بن کر ملک و قوم کی توقعات کے مطابق کھیل پیش کریں تو دنیا کی کسی بھی ٹیم کو پچھاڑنا مشکل نہیں۔