وصال محمد خان
گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس میں جو‘‘خصوصی’’فیصلہ دیاگیاتھا۔اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے دو ججوں نے اپنااختلافی نوت جاری کیاہے۔ فل کورٹ کے 8اکثریتی ججوں نے مخصوص نشستوں سمیت سنی اتحادکونسل کے ارکان بھی پی ٹی آئی کومرحمت فرمادئے۔ اس فیصلے سے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سمیت پانچ ججزنے اختلا ف کیاتھا۔ جن میں سے جسٹس امین الدین خان اورجسٹس نعیم اخترافغان نے اپناتفصیلی اختلافی نوٹ جاری کیاہے۔ دونوں ججزنے مذکورہ فیصلے کا بہترین اندازمیں پوسٹمارٹم کیاہے۔
اکثریتی فیصلے پرعملدرآمدہوتاہے یانہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کچھ معاملات واضح نہ ہونے پرعدالت عظمیٰ سے دوبارہ رجوع کرچکا ہے جبکہ جج صاحبان گرمی کی چھٹیوں پرہیں۔ اسلئے اگرمعاملہ چھٹیوں کے اختتام تک طول پکڑتاہے جس کے واضح امکانات ہیں توچھٹیوں کے بعدفیصلے پرنظرثانی کیلئے حکومتی درخواست بھی شنوائی کی منتظرہوگی ہے۔ جسے پرکاہ برابراہمیت نہ دیتے ہوئے معزز جج صاحبان چھٹیوں پرچلے گئے۔ بلاشبہ ملک کے تقریباً تمام شعبے اوران سے منسلک افراد اقتدارکی غلام گردشوں کے اسیربن چکے ہیں۔ حکومت ،سٹیلشمنٹ اورعدلیہ سب اپنی اپنی پوزیشنوں سے چالیں چل رہے ہیں جس کاجہاں داؤلگتاہے دوسرے کوزیرکرنیکی کوشش کرتاہے۔
خیر یہ موضوع ایک الگ کالم کا متقا ضی ہے۔ فی الحال ہماراموضوع دوججوں کااختلافی نوٹ ہے۔ دوججوں کے اختلافی نوٹ میں آئین کی خلاف ورزیوں کی جونشاندہی ہوئی ہے وہ یقیناً قابل غورہے۔ یہ دونوں جج صاحبان کوئی عام لوگ نہیں یہ سپریم کورٹ کے سنیئرججز ہیں اور آئین کے بارے میں انکی رائے کو یوں نظراندازنہیں کیاجاسکتاپھرانہوں نے فیصلے کی جن خامیوں کواجاگرکیاہے وہ عام فہم زبان میں ہر خاص وعام کی سمجھ میں آنے والی باتیں ہیں۔ نوٹ میں کہاگیاہے کہ ‘‘سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کودیکرخودسے ریلیف تخلیق کیاہے، اکثریتی فیصلے کے ذریعے آئین میں نئی شقیں شامل کرکے پی ٹی آئی کوریلیف دیاگیاہے، ایساکرنے کیلئے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63اورآرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہوگا، پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، آئین کے خلاف فیصلے پرکوئی ادارہ عملدرآمد کا پابندنہیں ہے، 80اراکین اسمبلی اکثریتی فیصلے کی وجہ سے اپنامؤقف تبدیل کرتے ہیں تووہ نااہل بھی ہوسکتے ہیں، ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحادکونسل نے بطورسیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیاحتیٰ کہ اسکے چیئرمین بھی آزادحیثیت سے میدان میں اترے’’۔
مختصر فیصلے کوپندرہ دن گزرجانے کے باوجود تفصیلی فیصلہ نہ آنے پربھی سوالات اٹھائے گئے ہیں اختلافی نوٹ کایہ جملہ سنجیدہ توجہ کامتقاضی ہے کہ‘‘ پی ٹی آئی کوریلیف دینے کیلئے آئین کے آرٹیکل175اور185میں تفویض شدہ دائرہ اختیارسے باہرجاناہوگا’’۔ اختلافی نوٹ میں قابل غورنکات اٹھائے گئے ہیں‘‘ آرٹیکل 51، 63اور106کومعطل کرناہوگاجبکہ آرٹیکل 175اور185میں تفویض کردہ دائرہ اختیارسے باہرنکلناہوگا’’۔ یعنی اس ایک فیصلے سے آئین کے5آرٹیکلزکی سنگین خلاف ورزی سامنے آئی ہے۔ ادارہ جو بھی ہواسے اپنی حدودقیودمیں رہناضروری ہوتاہے۔ اکثریتی بنچ کے فیصلے سے ظاہرہورہاہے کہ پی ٹی آئی کیساتھ چونکہ زیادتی ہوئی تھی اس لئے اکثریتی بنچ نے اس زیادتی کاازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
دوران سماعت معززججوں کے ریمارکس سے بھی پی ٹی آئی کی مظلومیت کاتاثرابھرا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کیساتھ کسی نے کوئی زیادتی نہیں کی اس نے الیکشن کمیشن رولز کے مطابق انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروائے جس پرپارٹی کے اپنے ہی لوگوں نے الیکشن کمیشن اور بعدازاں اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیاجس پرپارٹی کاانتخابی نشان واپس لے لیاگیا۔ انتخابات کے بعدپارٹی کے منتخب ہونے والے ممبران اپنی پارٹی میں شمولیت اختیارکرسکتے تھے مگر دانش سے بھرپورقیادت نے ایک اورپارٹی ہائیرکرلی۔ امریکی لابنگ فرمزہائیرکرنیکاتجربہ پارٹی پر بھی دہرایا گیا۔ سنی اتحادکونسل میں اپنے ارکان شامل کروانے والوں کویہ تک علم نہیں تھاکہ اسکی پوزیشن پی ٹی آئی سے بھی گئی گزری ہے۔ کیونکہ اس نے لکھ کردیاتھاکہ انہیں مخصوص نشستیں نہیں چاہئے اور انکے چیئرمین بھی آزادحیثیت سے اتخابات میں اترے تھے۔
راقم بارہا عرض کرچکاہے کہ اگرکسی دیگرپارٹی میں شمولیت کااتناہی شوق تھا تو پرویزخٹک کی پی ٹی آئی پی بہترین انتخاب ہوسکتاتھامگرایک عجیب و غر یب فیصلے کے تحت سنی اتحادکونسل کاانتخاب کیاگیا۔ اس سارے قضئے میں قصوریاکوتاہی تحریک انصاف قیادت کی ہے الیکشن کمیشن اوربعد ازا ں سپریم کورٹ نے آئین کے تحت انتخابی نشان چھیننے کوجائز قراردیا۔ ایک سیاسی جماعت جان بوجھ کرڈنکے کی چوٹ پرآئین کی خلاف ورزی کرے، اس پرمستزادیہ کہ خصوصی سلوک کی توقع بھی رکھے بصورت دیگرانکے خلاف سوشل میڈیاپرطوفان بدتمیزی کھڑاکیاجائیگا۔
ملک بھرمیں یہ تاثرعام ہے کہ فل کورٹ کے اکثریتی ججوں نے بھی اسی ٹرولنگ سے متاثرہوکرمذکورہ فیصلہ صادرفرمایاجس پرماہرین آئین و قانون محوئے حیرت ہیں۔ پی ٹی آئی اگرچہ اپنی مظلومیت کاپرچارکررہی ہے مگراپنے غیرآئینی اقدامات کاجائزہ لینے کی توفیق نہیں ہورہی انکی مظلومیت کی پرچاراوررونے دھونے سے غالباًاکثریتی ججز جذبات سے مغلوب ہوئے اورآئین کے 5آرٹیکلزکویاتومعطل کردیاگیا یا پھران میں دئے گئے اختیارات سے تجاوزکیاگیا۔ دوججزکے اختلافی نوٹ سے فل کورٹ کااکثریتی فیصلہ خاصی حدتک متنازعہ ہوچکاہے۔ خصوصاًاس صورت میں جب تفصیلی فیصلہ بھی غیرمعمولی تاخیرکاشکارہے۔
فل کورٹ کے ججوں کواپنی چھٹیاں منسوخ کرکے اس اہم معاملے کوسنناچاہئے تھا۔ نظرثانی درخواست بھی سردخانے میں پڑی ہوئی ہے اسکی سماعت میں گزشتہ فیصلے کی درستگی ممکن ہے بشرطیہ کہ معاملہ کسی کی انایاضمیرکانہ ہوبلکہ آئین وقانون کی سربلندی مقصودہو۔ دوججوں کااختلافی نوٹ بہت سے دَروا کررہاہے اس میں جونکات اٹھائے گئے ہیں وہ خاصے مضبوط ہیں اورانہیں پاؤں تلے روندکریاپھلانگ کرآگے نہیں بڑھاجاسکتا۔