Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Tuesday, September 10, 2024

بھارت کا ڈپریشن اور زمینی حقائق

بھارت کا ڈپریشن اور زمینی حقائق

عقیل یوسفزئی
بنگلہ دیش کی طرح بعض ملٹی نیشنل کمپنیوں ، پراکسیز اور کاسمیٹکس سرویز پر مشتمل ٹرائیکا بھارت کو بھی دنیا کا بہت مضبوط ملک قرار دینے کی مہم جوئی میں مصروف عمل رہی ہے اور اسی پس منظر میں پاکستان کے بہت سے حلقے حقائق بغیر اس ” مہم جوئی” سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی صورتحال نے بہت سے مقبول عام تجزیوں کو نہ صرف غلط ثابت کیا بلکہ اس ملک کے قیام کی بنیاد کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے رویے سے قطع نظر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس بغاوت نے جہاں ” ہائی بریڈ ” استحکام اور نام نہاد معاشی ترقی کے دعوؤں کو اڑاکر رکھ دیا ہے وہاں بھارت کے علاقائی تھانہ داری کی خوش فہمی کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ گزشتہ کئی روز کی مین سٹریم انڈین میڈیا کی نیوز اور ویوز کو دیکھنے کی ” زحمت” گوارا کی جائے تو قدم قدم پر محسوس ہوگا کہ بھارت بنگلہ دیش کی صورتحال سے کتنی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ہے اور خود کو بہت طاقتور ریاست سمجھنے والا یہ ملک بنگلہ دیش کی بارڈر سے متصل پانچ میں سے دو ریاستوں یا صوبوں آسام اور مغربی بنگال کی سیکورٹی سے متعلق خود کو کتنا غیر محفوظ سمجھتا ہے۔
پاکستان کو افغانستان کے تناظر میں مذاق اور تمسخر کا نشانہ بنانے والا بھارت شدید نوعیت کے خوف میں مبتلا ہوگیا ہے اور اس کی دوستی کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ کس طرح اپنی دیرینہ دوست شیخ حسینہ واجد کو ملک سے باہر نکال دے۔
حیرت اس بات کی ہے کہ 9 مئی کی زمہ دار پارٹی اور بعض دیگر سیاسی قوتیں پوائنٹ اسکورنگ کی چکر میں اسمبلی فلور اور عوامی اجتماعات کے دوران غلط ملط اندازے لگاکر پاکستان میں بنگلہ دیش کی طرح کسی مزاحمت یا بغاوت کی ” دھمکیاں” دینے کی کوشش کررہی ہیں حالانکہ پاکستان 9 مئی کے واقعات کی شکل میں یہ مرحلہ کچھ اس انداز میں سر کرکے نمٹا چکا ہے کہ اب ” مشروط معافی” کی عملاً غیر مشروط پیشکشیں بھی ہونے لگی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے چند روز قبل اپنی پریس بریفنگ میں 9 مئی اور ڈیجیٹل دہشتگردی سے متعلق ریاست کے بیانیہ اور ” عزم” کو پورے اعتماد اور شدت کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا ہے تاہم اس کا کیا کیا جائے کہ خوش فہمی اور غلط فہمی کا کوئی علاج نہیں ہے اور اس مرض میں مبتلا مریضوں کو متعدد ” جھٹکے ” لگنے کے باوجود ہوش نہیں آتا۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ پروپیگنڈے کے علاوہ خوش فہمیوں کی مرض سے بھی نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک طے شدہ سیاسی اور ریاستی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد کی حصول کا پرامن راستہ اختیار کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے حقائق کا ادراک کیا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket