خطے کے سیاسی، سیکیورٹی حالات اور پاکستان
عقیل یوسفزئی
دنیا کے بعض دیگر ریجنز کی طرح جنوبی ایشیاء کے متعدد اہم ممالک کو بھی عجیب قسم کی صورتحال ، بے چینی اور سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ دُنیا کی سب سے بڑی آبادی والے علاقے کو مزید پیچیدگیوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ طاقت کے عدم توازن ، سرحدی کشیدگی اور پراکسیز نے اس پورے خطے کو شدید نوعیت کے خطرات سے دوچار کیا ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس پورے ریجن کو معاشی مسایل نے بھی گھیر رکھا ہے ۔ یہ محض ایک خوش فہمی ہے کہ بھارت معاشی اور سیاسی طور پر بہت مضبوط ملک ہے یا بنگلہ دیش نے پاکستان وغیرہ کے مقابلے میں بہت ترقی کی ہے۔ بہت سے دعوے ملٹی نیشنل کمپنیوں اور میڈیا پروپیگنڈوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
اس کی تازہ مثال بنگلہ دیش بنگلہ دیش میں ہونے والی مزاحمت ، حکومتی زبردستی اور اس کے نتیجے میں حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ ، ان کی بے دخلی کا غیر متوقع منظر نامہ ہے جس نے اس ریجن کے علاوہ دنیا بھر کی دارالحکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اگر بنگلہ دیش واقعتاً اتنا مضبوط ملک تھا اور اس نے واقعی اتنی ترقی کی تھی جس طرح کا تاثر دیا جارہا تھا تو جس وزیر اعظم اور لیڈر یعنی شیخ حسینہ واجد کو اس عبرت ناک انجام سے کیوں دوچار ہونا پڑا اس کا جواب ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس سے قبل ایسی ہی صورتحال کا سری لنکا کو بھی سامنا کرنا پڑا تھا ۔ بنگلہ دیش میں جو کچھ چند ہفتوں کے اندر وقوع پذیر ہوا ایسے ہی حالات سے 9 مئی کے واقعات کی شکل میں پاکستان بھی دوچار ہوا تھا تاہم پاکستانی ریاست نے حسینہ واجد کے برعکس بہت تحمل سے کام لیا اگر چہ بعد میں 9 مئی کے واقعات کی ذمہ دار پارٹی نے ڈیجیٹل دہشتگری کے فارمولے کے تحت نہ صرف پاکستان کی ریاست کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا بلکہ چند ماہ قبل اس پارٹی نے بنگلہ دیش کو پاکستان کے مقابلے میں ” ماڈل ” کے طور پر پیش کرنے کی باقاعدہ مہم بھی چلائی۔
جس شیخ مجیب الرحمان کو مذکورہ پارٹی کے علاوہ بعض دیگر نے ہیرو قرار دیتے ہوئے پاکستان کو طعنے دئیے اس شیخ مجیب کی صاحب ذادی حسینہ واجد کو جس حالت میں جان بچانے کے لیے ملک سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لینی پڑی اس نے بنگلہ دیش کے قیام اور نام نہاد سوشو اکنامک پراگریس کو بے نقاب کردیا ہے ۔ جس شیخ مجیب الرحمٰن کو کئی مہینوں تک بطور ہیرو پیش کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ان کے مجسمے کو زمین بوس کرنے کے لیے انتہائی پرتشدد اور غیر متوقع طرز عمل اختیار کیا گیا۔
یہ بہت عجیب اتفاق ہے کہ جس روز یہ کارروائی کی گئی اس روز پاکستان میں یوم استحصال کشمیر کے سلسلے میں ایونٹس کاری تھے جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کی جانب دنیا کی توجہ دلانی تھی ۔ یہ بھی بہت عجیب بات ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام میں بعض دیگر عوامل کے علاوہ مسئلہ کشمیر اور اس سے جڑے ایشوز کا ہی ایک بنیادی فیکٹر رہا ہے تاہم بانی بنگلہ دیش اور فیملی کے قتل عام کی صورت میں ” صلہ” ملنے کے کئی دھائیوں کے بعد ان کی صاحبزادی کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس سےبہت سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اسی روز افواج پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے یوم استحصال کشمیر کی مناسبت سے اپنی پریس کانفرنس کے دوران جہاں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجھتی کرتے ہوئے خطے کے امن، استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کو ناگزیر قرار دیا وہاں انہوں نے اس عزم کا پھر سے اظہار کیا کہ پاکستان دہشت گردی اور شرپسندی کے علاوہ ڈیجیٹل ٹیررازم کے خاتمے کی اپنی کارروائیوں اور پالیسیوں کو بھی جاری رکھے گا۔
خطے کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے بعض بنیادی علاقائی تنازعات کا حل بہت ضروری ہے ۔ اگر ایک طرف ان ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف یوکرین کی جنگ اور ایران اسرائیل کشیدگی نے بھی دو اہم ترین خطوں کو شدید خطرات سے دوچار کیا ہے ۔ ایسے میں پاکستان کے سیاسی قائدین ، عوام اور میڈیا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سیاسی استحکام پر توجہ دیکر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے سیاسی بصیرت کا راستہ اختیار کریں۔