Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, April 29, 2024

بے چینی کی انتہا اور ریاستی ذمہ داریاں

عقیل یوسفزئی
یہ بات اب غالباً سب سنجیدہ حلقوں کے لیے ناقابل برداشت ہونے لگی ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کی آڑ میں ایک مخصوص پارٹی کے لیڈرز اور ان کے ملکی، غیر ملکی حامی پاکستان کی سلامتی کو مختلف زاویوں اور طریقوں سے نقصان پہنچانے کی ایک منظم منصوبے پر عمل پیرا ہیں اور یہ لوگ خود کو نہ تو کسی قانون کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں اور نا ہی ان کو اس بات کا کوئی احساس ہے کہ جس ملک نے ان کو سب کچھ دیا یہ اس ملک اور اس کے اداروں، عوام کے ساتھ کیا کرنے جارہے ہیں۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے عزائم 9 مئی کے واقعات کے دوران ہی بے نقاب ہوگئے تھے تاہم ریاست نے بوجوہ ان کا اس انداز میں محاسبہ نہیں کیا جو کہ دوسرے ممالک میں ایسے واقعات کے بعد ایسے عناصر کا کیا جاتا ہے۔ اس نرم دلی سے ان عناصر نے ناجائز فایدہ اٹھانے کی پالیسی اختیار کی اور اس کا نتیجہ اب پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ 9 مئی کے واقعات نے ہماری سیاست ، ریاست اور معاشرت کو برباد کرکے رکھ دیا تھا اس کے باوجود بہت سے حلقوں کا خیال تھا کہ اس بے ہنگم ہجوم کو یہ سمجھ کر ممکنہ حد تک رعایت دی جائے کہ شاید ان شرپسندوں نے ردعمل کے طور پر یہ راستہ اختیار کیا ہو تاہم یہ خیال قطعی طور پر وقت نے غلط ثابت کیا اور آج انتخابات کے معاملے کو اس ہجوم نے جس طریقے سے ڈیل کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے اس نے پورے سسٹم اور سوسائٹی کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنادیا ہے۔ عدالتی نظام میں موجود نقائص اور پرتشدد دباؤ نے اس ہجوم کو مزید کچھ کرنے کے مواقع فراہم کیے اور اب حالت یہ ہے کہ پورے معاشرے کو ڈپریشن اور عدم تحفظ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جس انداز میں الیکشن کے بعد متعلقہ اداروں اور مخالفین کو نام و نہاد سوشل میڈیا کی ڈالر گیم کے ذریعے فیک نیوز اور انتہائی ننگی جھوٹ پر مبنی مہم کا نشانہ بنایا گیا وہ سلسلہ ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ ریاست اور معاشرت کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں اس لیے ان عناصر کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹنے کی آواز آج وہ حلقے بھی اٹھانے لگے ہیں جن کی اس ہجوم یا اس کے حامیوں کے ساتھ بوجوہ کچھ ہمدردیاں تھیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مزید کسی رعایت یا مصلحت کو خاطر میں لائے اور وقت ضائع کئے بغیر ان عناصر کے خلاف ریاست پوری شدت کے ساتھ حرکت میں آکر ان کا صفایا کریں ورنہ دوسری صورت میں خدا نخواستہ یہ ملک کسی سانحے سے دوچار ہوجایے گا اور ایسے میں ہمارے پاس تلافی کی گنجائش بھی باقی نہیں رہے گی۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket