پاکستان خطے اور دنیا میں مختلف نوعیت کی سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں متوقع ہیں اور بہت سے چیلنجز پر مباحثہ بھی جاری ہے۔ ان تمام جاری اور متوقع تبدیلیوں، چیلنجز پر متعلقہ صاحب الرائے شخصیات، تجزیہ کاروں اور ریاستی ذمہ داران کا ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے بلکہ ماضی کے واقعات اور غلطیوں کا اعتراف بھی کیا جا سکتا ہے۔
افغانستان
امریکا کے سابق خصوصی نمائندے اور سفیر زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغانستان کا 70 فیصد معاشی اور انتظامی انحصار امریکی امداد پر تھا تاہم جب اشرف غنی بہت سے غلطیوں کے بعد اپنے ملک سے فرار ہوگئے تو ان کی فوج نہیں لڑی، اس کا ڈھانچہ ٹوٹ گیا اور طالبان افغان حکومت کے ساتھ ایک مجوزہ معاہدے کے بغیر ملک پر قابض ہوگئے۔ ممتاز صحافی ، تجزیہ کار اور وائس آف امریکہ کی نمائندہ خصوصی ڈاکٹر مونا کاظم شاہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں زلمے نے کہا کہ پاکستان روز اول سے افغان مسئلے کا سیاسی حل چاہ رہا تھا اور ہمیں اس کے تعاون کی اشد ضرورت تھی۔ حالات اس لیے خراب ہوئے کہ ڈاکٹر اشرف غنی نے پہلے تو دوحا معاہدے کے دوران غلط بیانی سے کام لے کر تعاون نہیں کیا۔پھر ساتھیوں کو بتائے بغیر ملک سے بھاگ گئے اور ان کی فوج بڑی نہیں کیونکہ شاید وہ طالبان سے لڑنے کے لیے تیاری ہی نہیں کی گئی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شاید اشرف غنی کو امریکی انخلاء کا یقین نہیں تھا یا عالمی برادری کی 20 سالہ سرمایہ کاری درست نہیں تھی۔ امریکہ کے لیے مزید لڑنا اور پیسہ لگانا مشکل ہو گیا تھا اس کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ دوحا معاہدے پر عمل ہو اور افغانستان کی فوجی، انتظامی اور اقتصادی استحکام پر توجہ دی جائے۔
خطے میں جنگ کا خطرہ
ممتاز تجزیہ کار اور محقق شیراز پراچہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی ڈیموکریٹک سمٹ میں شرکت سے انکار کر کے اچھا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کانفرنس کا مقصد روس اور چین کی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کے خلاف نئی صف بندی کا راستہ ہموار کرنا تھا۔ خصوصی بات چیت میں شیراز پراچہ کا موقف رہا کہ پاکستان نے 50، 80 اور 2000 کی دہائیوں میں سوویت یونین سمیت متعدد دیگر طاقتوں کو نظرانداز کر کے امریکہ کا ساتھ دیا جس کا تینوں ادوار میں پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا اور امریکہ اس کے باوجود اس کے کردار کو شک کی نظر سے دیکھتا رہا۔
شیراز پراچہ کے مطابق علاقائی اور عالمی سطح پر اب امریکہ میں ڈیموکریٹس کے برسراقتدار آنے کے بعد نئے تنازعات بنتے دکھائی دے رہے ہیں اور امریکہ روس اور چین کی شکل میں ایک بار پھر ایک نئی محاذ آرائی کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یوکرائین کا حالیہ تنازعہ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ایشیاء بلکہ یورپ پر بھی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کا پہلے کی طرح امریکی بلاک کا حصہ بننا ایک اور غلطی کا ارتکاب ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان نے روس اور چین کی مخالفت کی بجائے ڈیموکریٹک سمیٹ کے بہانے نئی امریکی صف بندی اور گروپ بندی سے خود کو الگ رکھ کر ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔
ٹی ٹی پی سے مذاکرات
باخبر صحافی جمشید باغوان کے مطابق حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان شروع کیے گئے مذاکرات بوجوہ ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے ہیں ختم نہیں ہوئے۔ ان کی معلومات کے مطابق اس قسم کے مذاکراتی عمل میں اتار چڑھاؤ اور شرائط کی بنیاد پر ڈیڈ لاک کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ افغان طالبان کی شدید خواہش ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں جبکہ اب یہ ٹی ٹی پی کی بھی صرورت ہے۔ ان کے مطابق اس مجوزہ عمل میں حکومت پاکستان کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے کیونکہ حکومت نے اکثر شرائط ماننے سے انکار کر دیا ہے۔