تحریک طالبان پاکستان نے اپنے حالیہ بیان میں حکومت پاکستان پر مختلف معاہدے توڑنے کے الزامات لگاتے ہوئے ایک ماہ قبل کے اعلان کردہ سیزفائر کے فیصلے سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے جبکہ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی قانون کے مطابق نہیں چلتی تو پہلے کی طرح اب بھی اس کے خلاف لڑیں گے۔ ترجمان محمد خراسانی کے جاری کردہ بیان کے مطابق مجوزہ مذاکراتی عمل کی دو نشستوں کے فیصلوں اور شرائط پر حکومت ایک ماہ کے عرصے میں پوری نہیں اتری۔ قیدیوں کی جو لسٹ دی گئی تھی اس پر عمل نہ ہوسکا جبکہ ان کے مطابق فورسز نے اس دوران مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرکے بعض افراد کو ہلاک تو متعدد کو گرفتار کرلیا جس کے باعث مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا ممکن نہیں رہا۔
انہوں نے افغان حکومت کو سہولت کار کی بجائے مذاکراتی عمل کے دوران ثالث قرار دیا۔ دوسری طرف افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک تفصیلی انٹرویو میں کہا ہے کہ ٹی ٹی پی امارت اسلامیہ کا حصہ اور اس کے فیصلوں کی پابند نہیں ہے تاہم انہوں نے واضح انداز میں ٹی ٹی پی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے کامیاب بنائے تاکہ ان کے بقول پاکستان دشمن قوتوں کی مداخلت ختم ہوسکے۔ ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق طالبان حکومت ثالثی کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی کیونکہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔
ادھر ٹی ٹی پی نے وزیرستان ، ٹانک، پشاور اور بعض دیگر علاقوں میں پولیس پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ حکومت کا بھی کہنا ہے کہ حالیہ حملوں میں ٹی ٹی پی کی کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ اگرچہ محمد خراسانی کے بیان میں یہ بات واضح انداز میں شامل نہیں کہ مجوزہ مذاکراتی عمل کو ختم کیا جا رہا ہے یا یہ کہ رابطے ختم کیے گئے ہیں۔ تاہم ان کے دلائل اور موقف سے یہی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سیزفائر کا اعلان مزید قابل عمل نہیں رہا۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری کے مطابق اگر ٹی ٹی پی قانون کے مطابق نہیں چلتی تو جس طرح حکومت اس کے خلاف پہلے لڑی تھی اب بھی لڑے گی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سانحہ اے پی ایس کے تمام ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان رابطے جون 2021 کے دوران قائم ہوئے تھے اور اس پیش رفت کو فریقین افغانستان سے امریکی انخلا کے تاثرات کے تناظر میں ڈیل کر رہے تھے۔ اگست کے وسط میں جب افغان طالبان نے کابل افغانستان کو ٹیک اور کیا تو نئی افغان حکومت نے ٹی ٹی پی کو مذاکرات کا عمل تیز کرنے کی ہدایت کی کیونکہ ان کی اعلی قیادت سمیت ہزاروں کارکن 2014 کے بعد افغانستان کے مختلف علاقوں میں قیام پذیر تھے اور پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان پہلے سے یہ طے پایا تھا کہ اگر طالبان حکومت میں آگئے تو ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ستمبر میں پاکستان کے اعلی ترین فوجی حکام اور طالبان حکومت کے ذمہ داران کے ساتھ کابل میں ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ان ہی کوششوں کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے سیز فائر کا اعلان کیا جبکہ بدلے میں حکومت نے کیٹگری ٹو کے تقریبا چالیس قیدی رہا کیے مگر معاملہ اس وقت بد اعتمادی کا شکار ہوا جب ٹی ٹی پی نے مجوزہ معاہدے کی رابطہ کاری کے دوران بعض اعلی سطح سرگرمیاں شروع کیں اور بعض ایسے اہم قیدیوں کی رہائی کی شرط رکھی جن کی رہائی پر متعلقہ سیکیورٹی حکام فی الحال راضی نہیں تھے۔ جن شرائط پر باتیں ہو رہی تھیں ان میں ایک شرط یہ تھی کہ اقدامات مرحلہ وار اٹھائے جائیں گے اور سب سے بڑھ یہ کہ ٹی ٹی پی پہلے مرحلے میں کسی بھی قسم کی سرگرمی یا کاروائی سے دستبردار ہوگی مگر بوجوہ اس پر عمل نہ ہوسکا۔
دو طرفہ بیانات اور الزامات سے قطع نظر متعلقہ حلقوں کا اب بھی کہنا ہے کہ مذاکرات کا عمل فی الحال ختم نہیں ہوا ہے بلکہ تعطل کا شکار ہوا ہے اور رابطہ کاری جاری ہے جس میں اب بھی افغان حکومت بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ کہنا کہ سلسلہ ہی ختم ہو چکا ہے درست نہیں ہے تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی میں اب نہ تو پہلے والی قوت موجود ہے اور نہ ہی بڑی کارروائیوں کی کوئی خاص صلاحیت اسلیے اگر مذاکرات ناکام بھی ہو جاتے ہیں تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور یہ کے حالات کنٹرول میں ہیں.