کہتے ہیں کہ جنگ، گھٹن، جبر اور سماجی بے چینی کے حالات اور ماحول میں بہت تخلیقی اور حقیقی ادب متعارف ہو کر قوموں کو مستقبل کی نئی راہیں اور منزلیں دکھاتا ہے۔ تھیوری کے مطابق تخلیقی اذہان سے کچھ خاص لکھنے اور سمجھنے کے لئے لازمی ہے کہ ان کو جھنجوڑ دیا جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ حالات معمول سے ہٹ کر ہوں۔ پاکستانی معاشرے کا ایک المیہ یہ رہا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے یہاں کتب بینی یا معیاری مطالعہ کی عادت اور رجحان میں کمی واقع ہوگئی ہے حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے باوجود کتب بینی میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔
تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان کے سنجیدہ لکھاری نہ صرف مسلسل لکھتے آرہے ہیں بلکہ وہ معاشرے کی برائیوں کی نشاندہی کے دوران جرات کا مظاہرہ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان گزشتہ تیس چالیس برسوں سے جہاں مسلسل اقسام کی شورشوں اور جنگوں کی صورتحال سے دوچار رہا وہاں دوسری طرف اس کا معاشرہ ایک مثبت ارتقائی عمل سے بھی گزرتا رہا۔ اگرچہ تحریر پر تقریر اور مکالمہ پر مباحثے کا اثر اور غلبہ زیادہ رہا تاہم اس دوران بعض دانشوروں اور صحافیوں نے غیر مروجہ کام کرکے تاریخ اور حالات کو حقیقی زاویوں سے دیکھنے اور لکھنے کی شعوری کوشش جاری رکھی۔
مثال کے طور پر ایک حساس ،باخبر اور صاحب مشاہدہ رائٹر بریگیڈیئر (ر) طاہر محمود کا ایک ناول “ وئیر کلاوڈز میٹ “علمی ادبی اور صحافتی حلقوں میں آجکل زیر بحث ہے جس میں ہمارے ملک اور خطے کے بعض ایسے کرداروں کو خوبصورتی کے ساتھ انگریزی زبان میں پیش کیا گیا ہے جو کہ مختلف شعبوں اور علاقوں سے تعلق رکھتے ہوئے بعض سنگین قسم کے حالات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں۔ 300 صفحات پر مشتمل اس کاوش میں پرو پیگنڈے یا خواہشات کی بجائے رومانوی انداز میں تلخ واقعات کے بنیادی اسباب اور اثرات پر پاکستان کے مخصوص حالات کے تناظر میں نہ صرف یہ کہ بحث کی گئی ہے بلکہ مختلف کرداروں کے بیانیے کے پس منظر میں زبردست قسم کے مکالمے بھی اس میں شامل ہیں۔ فرائض کی بجا آوری، جغرافیے اور روایات کی اہم سماجی مجبوریوں اور سب سے بڑھ کر انسانی جذبوں اور امن کی ضرورت جیسے موضوعات کو ایسے انداز اور الفاظ کے ذریعے سمیٹنے اور دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والے کو اکتاہٹ یا بیزارگی کا احساس ہی نہیں ہوتا جبکہ ہر کردار اور واقعے کے پیچھے ایک خاص مقصد کو پیش کرنے کی بہترین کاوش ہر قدم پر نظر آجاتی ہے۔ ناول اور افسانے کا رجحان ویسے بھی بہت کم ہے اس لیے اس کاوش کا غیرمعمولی نوٹس لیا گیا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے اور طاہر محمود کی علمی صلاحیتوں سے پڑھنے والوں کی توقعات اس حوالے سے بھی مزید بڑھ گئی ہیں کہ وہ بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔
نامور لکھاری اور صحافی سجاد اظہر کی کاوش “لنڈی کوتل کی لالٹین “بھی متعلقہ حلقوں اور قارئین میں دلچسپی اور بحث کا موضوع ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور افغانستان پر گزرے حالات کو نثری نظم کے ذریعے خوبصورت انداز اور پیرائے میں بیان کرنے کا انوکھا تجربہ کیا ہے اور جاری حالات کی صحافیانہ انداز میں بہت اچھی منظر کشی کی ہے جس جبر اور پر اکسیز کا ہم نے سامنا کیا اس کاوش میں اس کے اسباب اور کرداروں دونوں کا ذکر ہے۔ انسانی حقوق کی بات کی گئی ہے تو اظہارِ رائے کی اہمیت اور ضرورت کو بھی سجاد اظہر نے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ روشنی اور اندھیرے جبکہ مایوسی اور امید کی کیفیات کا خوبصورت موازنہ کیا گیا ہے جبکہ اجتماعی شعور اور فرائض پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
پاکستان کے نابغہ روزگار کالم نویس دانشور اور ڈرامہ رائٹر سعد اللہ جان برق کی نئی کتاب “یادوں کے جنازے” بھی منظر عام پر آئی جو کہ جناب برق کی آپ بیتی اور یادداشت پر مشتمل ہے۔ 770 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے جہاں اپنی یادداشت کو انتہائی خوبصورت انداز میں قلم بند کیا ہے وہاں انہوں نے اپنے قارئین کو درجنوں ایسی شخصیات سے بھی متعارف کروایا ہے جن کے بارے میں یا تو لوگ جانتے نہیں یا بہت کم جانتے ہیں۔
اس کوشش کے دوران سعد اللہ جان برق نے اپنے سمیت کسی کو نہ تو بخشا ہے اور نہ ہی کسی کے ساتھ رعایت برتی ہے۔ زیادہ فوکس پشتون سوسائٹی، اس کی شخصیات اور حالات پر ہے تاہم حسب سابق برق نے اپنے وسیع مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر تاریخ کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ ہم جہاں سعد اللہ جان برق کے دور میں رہ کر ان سے مستفید ہو رہے ہیں وہاں ہمیں طاہرمحمود اور سجاد اظہر جیسے لکھاری بھی میسر ہیں۔