پشاور میں جینیٹک ڈس آرڈر کے موضوع پر سیمینارکاانعقاد

پشاور میں جینیٹک ڈس آرڈر کے موضوع پر سیمینارکاانعقاد

KMU genetic disorder seminar

خیبر میڈیکل یونیورسٹی اور دوستی فائونڈیشن کے اشتراک سے جینیٹک ڈس آرڈر کے موضوع پر سیمینارکاانعقاد کیا گیاجس کے مہمان خصوصی سپیشل سیکرٹری ہیلتھ خیبرپختونخوا سید عبد الغفور شاہ تھے۔ سیمینار میں سپیشل سیکرٹری ہیلتھ ،وائس چانسلر کے ایم یو، طبی ماہرین اور طلباء وطالبات کی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پختون معاشرے میں کزن میرج ایک فرسودہ روایت ہے جس کی تبدیلی ایک بڑا چیلنج ہے۔ جینیٹک ڈس آرڈر جیسے طبی چیلنجز سے نمٹنے کے لیئے تمام ریاستی اداروں کو مل جل کر اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔

اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق اور طبی ماہرین کے علاوہ فیکلٹی اور طلباء وطالبات کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سپیشل سیکرٹری ہیلتھ خیبرپختونخوا سید عبد الغفور شاہ نے کہا کہ ہم ایک قبائلی اور نیم قبائلی معاشرے میں رہتے ہیں اس میں کزن میرج ایک مضبوط مگر فرسودہ روایت ہے۔اس رواج کی تبدیلی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایک صحتمندمعاشرےکی تشکیل کے لئے تمام ریاستی اداروں کو مل جل کر اس فرسودہ رواج کے خاتمے میں اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سکول نصاب میں جینیٹک ڈس آرڈر جیسے طبی مسائل کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔ اس سیمینار کے ذریعے ہم معاشرے کو جینیٹک ڈس آرڈر کی روک تھام کے حوالے سے ایک مثبت پیغام دے سکتے ہیں۔ ہمیں امراض کے علاج سے ذیادہ امراض سے بچائو اور حفاظتی تدابیر پر توجہ دینی چاہئے۔ ہمیں سکول نصاب میں ان امراض کو شامل کرنا چاہئے جو جینیٹک ڈس آرڈر کا سبب بنتے ہیں۔ اس ضمن میں علماءکرام اور میڈیا پربھی بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے جو معاشرے میں جینیٹک ڈس آرڈر جیسے چیلنجز سے نمٹنے میں کلیدی کرداراداکرسکتے ہیں۔ تعلیم اور آگاہی مہمات اس ضمن میں ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

سپیشل سیکرٹری ہیلتھ نے کہاکہ محکمہ صحت جینیٹک ڈس آرڈر جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیئے پہلے سے کام کر رہا ہے،سیمینار کی سفارشات کو تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کر کےمتعلقہ فورمزسے منظور کرایا جائے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق اور طبی ماہرین نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کے ایم یو اور دوستی فائونڈیشن دیگر اداروں کے ساتھ مل کر جینیٹک ڈس آرڈر جیسے طبی اور سماجی مسلئے سے نمٹنے کے لیئے گزشتہ کئی سالوں سے جو جہد مسلسل کررہے ہیں اس کے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس ایڈوکیسی سے نہ صرف صوبائی حکومت نے قانون سازی کی ہے بلکہ اس حوالے لوگوں کے شعور میں بھی دن بدن اضافہ ہورہاہے۔انہوں نے کہا کہ جینیٹک ڈس آرڈر کے کئے اسباب ہیں لیکن ان میں سرفہرست کزن شادیاں ہیں جس سے پیدا ہونے والے بچوں میں تھیلی سیمیا سمیت کئی پیچیدہ امراض کے خطرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

ماہرین نے کہا کہ جینیٹک ڈس آرڈر کے چیلنج سے نمٹنے کے لیئے ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں شعوراور آگہی پیدا کرنے پر توجہ دینی ہوگی اور آج کے اس سیمینار کے انعقاد کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ہمیں جینیٹک ڈس آرڈر کا مقابلہ کرنے کے لیئے انٹرڈسپلنری اپروچ کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں قوانین تو موجود ہیں ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ ہمیں شادیوں سے پہلے ٹیسٹوں کو یقینی بنانا چاہئے۔ یہ ٹیسٹ حمل کے ابتدائی دنوں میں بھی مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ جینیٹک ڈس آرڈر کے سدباب کے لیئے تمام اداروں کو مل کر اجتماعی اپروچ اپنانی چاہئے۔ معذور بچے یاتھیلی سیمیا کے شکار بچے معاشرے کے ساتھ ساتھ خاندان پر بوجھ ہوتے ہیں۔ایسے بچے مسائل میں اضافےکا باعث بنتے ہیں اس کے سد باب کے لئے ہمیں مشترکہ کوششیں کرنا ہونگی ۔آج کا یہ سیمینار یہ پیغام پھیلانے کا ایک اچھا پلیٹ فارم ہے۔ آپ سب شرکاءاس قومی پیغام کو پھیلانےکےسفیر ہیں امید ہے کہ آپ اس پیغام کو معاشرے میں پھیلاکر احساس زمہ داری کا ثبوت دیں گے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket