عقیل یوسفزئی
مسلسل قانونی، عدالتی رعایتوں اور ریاستی نرمی کے باوجود جب بعض لوگ ڈالر گیم اور ذاتی مفادات کی خاطر نرمی سے ناجائز فایدہ اٹھانے کے عادی ہوجاتے ہیں تو وہ دوسرے تیسرے مرحلے میں پہلے سے زیادہ خطرناک شکل اختیار کرکے ریاست کو مذاق سمجھنے لگ جاتے ہیں اور اس خوش فہمی میں ایسے عناصر ہر حد پار کرکے خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب رسی کھینچ لی جاتی ہے اور پھر بہت سی خوش فہمیاں دنوں میں دور ہو جاتی ہیں۔ اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے عناصر ہر دور میں پیدا ہوئے جن کو یہ خوش فہمی رہی کہ جو کچھ وہ کہتے اور کررہے ہیں وہ درست اور باقی سب غلط ہیں تاہم جب سسٹم تمام تر کمزوریوں کے باوجود حرکت میں آتا ہے تو ایسے عناصر کے ہاتھوں میں کچھ نہیں رہتا اور ان کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔
پاکستان کو گزشتہ چند برسوں سے ایسی ہی ایک منظم ہائی بریڈ وار سے دوچار ہونا پڑا ہے اور یہ سلسلہ ایک مخصوص لیڈر کی متکبرانہ مائنڈ سیٹ کے باعث سال 2023 کے دوران انتہا تک پہنچ گیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے بے چینی پھیلانے والے ان عناصر کو بوجوہ قابو نہیں کیا تو اس کی بورڈ انڈسٹری نے تمام حدود وقیود پار کردی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ” انڈسٹری” پاکستان کی معاشرت ، سیاست اور آخر میں ریاست کو مذاق کر رکھ دیا۔
گزشتہ ہفتے راولپنڈی کے ایک کمشنر نے ایک انتہائی ڈرامائی قسم کی پریس کانفرنس کرتے ہوئے 8 فروری کے انتخابات کو انتہائی متنازعہ بناتے ہوئے ہمارے سول نظام کی تربیت اور ترتیب دونوں کو ننگا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تاہم گزشتہ روز موصوف نے ” بعد از خرابی بسیار” کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو ایک اور عہدے کی لالچ دے کر مذکورہ ” ڈرامہ بازی” کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ موصوف نے الیکشن کمیشن اور دیگر سے معافی بھی مانگی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ڈرامے بازیاں کم ہونے کی بجائے بڑھتی کیوں جارہی ہیں اور اس سے جو نقصان ہوتا ہے کیا محض ایک آدھ معافی سے اس کی تلافی ہوسکتی ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اگر سال 2013 کے نتائج کے بارے ایسے ہی زریں انکشافات کا اظہار کرنے والے الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار افضل خان کو نشان عبرت بنانے کی پالیسی اختیار کی جاتی تو آج اس نئے ” ماڈل” کو یہ سب کہنے اور کرنے کی جرآت نہیں ہوتی۔ ایسے متعدد کردار اور بھی ہیں تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ کسی کو بھی نشانہ عبرت نہیں بنایا گیا۔ پہلے ایسے لوگ ذاتی مفادات کے لیے اس قسم کی حرکتیں کرتے تھے تاہم اب ان پر باقاعدہ انویسٹمنٹ ہوتی ہے اور اس انویسٹمنٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی شامل ہیں۔ اس لیے ایسے عناصر پر مزید خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملک کو بدانتظامی کے بعد خانہ جنگی کی جانب جان بوجھ کر دھکیل رہے ہیں۔ گزشتہ روز جب سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تناظر میں نارمل نوعیت کے چند ریمارکس سامنے آئے تو ایسی ہی ایک مخلوق نے اس کو غلط معنی دیکر ایک اور فساد کھڑی کرنے کی باقاعدہ مہم چلائی۔ اچھی بات یہ ہے کہ متعلقہ اداروں نے دیر آید درست آید کے مصداق ایک سیاسی جماعت کے صحافی نما یوٹوبر کو دوسری بار گرفتار کرکے متعدد دیگر پر بھی ہاتھ ڈالا۔ یہ اس جانب ایک اشارہ سمجھا گیا کہ شاید روایتی اداروں کی نااہلی دیکھ کر اب اہم ادارے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے حرکت میں آگئے ہیں اور ان کی نظر میں اب اس خطرناک عمل کو لگام دینے کا وقت آگیا ہے۔ اس میں دو آراء ہے ہی نہیں کہ پاکستان کی ریاست اور سوسائٹی کو بچانے کے لیے بعض سخت فیصلے کرنے پڑیں گے اور مزید مصلحتوں کا یہ ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔