عقیل یوسفزئی
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت پشاور کا دورہ کیا جس کا مقصد دہشت گردی کی جاری لہر کے دوران فورسز خصوصاً پختونخوا پولیس کی قربانیوں اور کامیابیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا. انہوں نے اس موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور دیگر فورسز نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جو قربانیاں دی ہیں وہ نہ صرف یاد رکھی جائیں گی بلکہ انہی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیابی سے ہمکنار ہوکر ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور اب اس کی کامیابی کا اعلان کرنا باقی ہے. ان کے مطابق ہم شہداء کے علاوہ اس صوبے کے مقروض ہے کیونکہ اس صوبے نے پاکستان کی سلامتی اور استحکام کی جنگ لڑی ہے اور اس مقصد کیلئے فورسز کے علاوہ عوام نے بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں. ان کے بقول چھپے ہوئے حملہ آوروں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی اور اگر وہ اتنے ہی بہادر ہیں تو سامنے آئے اور مقابلہ کریں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبر پختونخوا کو گزشتہ 25 برسوں سے مسلسل جنگ، کشیدگی اور بدامنی کا سامنا ہے اور اس جنگ میں ہزاروں شہریوں اور فورسز نے جانوں کی بے مثال قربانیاں دی ہیں تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان قربانیوں کے باوجود یہاں کے عوام اور فورسز کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے یہ مستحق ہیں. اس پر ستم یہ کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ایک پارٹی نے جہاں حملہ آوروں کو ” رعایتیں” دیں وہاں اس پارٹی کی حکومت نے فورسز کی سہولیات، تربیت اور سازوسامان کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے دی جانے والی رقوم کو فورسز کی بجائے نام نہاد ترقیاتی منصوبوں پر اڑاکر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا مجرمانہ رویہ اختیار کیا جس کے باعث ہمارے سینکڑوں جوان نشانہ بنتے گئے. ایک سرکاری دستاویز کے مطابق تبدیلی والی سرکار نے تقریباً 400 ارب روپے دوسرے کاموں پر خرچ کئے اور یہ لوگ اس پر کھبی نادم بھی نہیں دکھائی دیے. اس پر ستم یہ کہ موجودہ نگران حکومت سمیت کسی بھی وفاقی حکومت نے جنگ ذدہ پختونخوا کو اضافی فنڈز تو ایک طرف اپنے ذمے صوبے کی واجب الادا پیسے بھی ادا نہیں کئے. ایک اندازے کے مطابق وفاقی حکومت اور اس کے بعض اداروں کے ذمے پختونخوا کے تقریباً 2000 ارب سے زائد رقم واجب الادا ہے مگر ادائیگی میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے.
دوسری جانب وزارت خارجہ کی ترجمان نے گزشتہ روز ایک بریفنگ کے دوران واضح کیا کہ پاکستانی ریاست کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی بھی قیمت پر کسی مذاکراتی عمل کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی. ان کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو افغانستان جانے سے قبل اس ضمن میں ان کی خواہش پر درکار بریفنگ دی گئی تھی تاہم وہ اپنے طور پر افغانستان گئے ہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو مسلسل حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور معاملہ اتنا سادھا نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ تمام تر دو طرفہ کارروائیوں کے باوجود صوبے میں سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر اچھی بات یہ ہے کہ ضم اضلاع سمیت دیگر علاقوں میں اقتصادی بحران اور نگران حکومت کی محدود مینڈیٹ کے باوجود ترقیاتی منصوبوں کا سلسلہ بھی جاری ہے.