بقول عام تاثر یا تبصروں کے برعکس خیبرپختونخوا میں بچیوں اور لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت کی شرح میں اضافہ ہوتا آ رہا ہے اور یہ رحجان کسی شہر، علاقے یا قبیلے تک محدود رہنے کی بجائے تقریباً ہر علاقے میں تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ فوج اور پولیس جیسے نسبتاً سخت اداروں کے سمیت ہر شعبے میں خواتین کی بڑی تعداد خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
حال ہی میں پختونخوا کے ضلع ہری پور سے تعلق رکھنے والی ایک باصلاحیت لڑکی نے سی ایس ایس کا امتحان بہت نمایاں پوزیشن میں پاس کیا تو صوبے کے عوام نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کیا تاہم عالمی اور قومی میڈیا کے ذریعےجب اُن کو یہ معلوم ہوا کہ موصوفہ کی چار اور بہنیں بھی سی ایس ایس کر چکی ہیں اور اہم عہدوں پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں تو اس خبر اور منفرد ریکارڈ کو صوبے کے عوام نے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھا اور اِن باصلاحیت لڑکیوں کے والدین کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کی گئی۔جنہوں نے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے اور اولاد نرینہ نہ ہونے کے باوجود اپنی صاحبزادیوں کو بیٹوں سے بڑھ کر چاہا ،ان کی تربیت کی اور ان پر اعتماد کرکے ملک کی تاریخ کا منفرد اعزاز پانے کا راستہ ہموار کیا۔
ہری پور سے تعلق رکھنے والے رفیق اعوان اور ان کی اہلیہ خورشید بیگم کی کہانی یہ ہے کہ جب ان کے ہاں یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں تو قریبی رشتہ داروں اور دوستوں نے حسب روایت ان کو یہ طعنے دینے شروع کئے کہ اگلی بار اُن کے ہاں بیٹا پیدا نہیں ہوا تو معاشرتی اور معاشی طور پر ان کا بڑھاپا مشکل میں پڑ جائے گا کیونکہ والدین کے بڑھاپے کیلئے بیٹوں کو سہارا اور بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور بیٹوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
خدا کا کرنا تھا کہ ان کے ہاں پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور وہ بیٹے کی ولادت سے محروم رہے۔ اس تمام عرصے کے دوران رشتہ دار نہ صرف ان کے ساتھ ہمدردی جتاتے رہے بلکہ اُن پر طنز بھی کرتے رہے مگر اس مثالی اور بہادرجوڑے نے اس رویے اور مسئلے کا حل یہ نکالا کہ انہوں نے بیٹیوں کی تعلیم اور تربیت کو مقصد حیات بنا کر ان پر بھرپور توجہ دی اور اُن کی صاحبزادیوں نے بھی والدین کی ایک انمول خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب ان کی پہلی صاحبزادی نے سی ایس ایس میں نمایاں کامیابی حاصل کی تو والدین کی خوشی کی انتہا نہیں رہی اور پس منظر میں دوسری بہنوں نے بھی پہلی کو مثال بنا کر والدین سے وعدہ کیا کہ وہ بھی اعلیٰ ترین امتحانات پاس کریں گی ۔
دوسری نے بھی سی ایس ایس جیسی اعلےٰ حکومتی سروس کا امتحان پاس کیا اور دونوں بڑی بہنیں اعلےٰ عہدوں پر فائز ہوئیں۔ اس کے بعد سی ایس ایس گویا باقی تین کے لیے بھی ایک چیلنج کی صورت اختیار کر گئی۔ مزید دو بھی اس خواہش کی تکمیل میں کامیاب ہوئیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو رشتہ دار اور دوست ان کے والدین کو طعنے دے رہے تھے وہ نہ صرف مبارک بادیں دینے لگے بلکہ ملک رفیق اعوان کے ذریعے سفارشیں بھی کروانے لگے۔ حالیہ سی ایس ایس نتائج میں سب سے چھوٹی اور آخری بیٹی زوہا بھی سی ایس ایس کر کے اعلےٰ ترین سول سروس کا حصہ بن گئی۔ یوں غالباً یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ واحد اور پہلا خاندان ثابت ہوا جہاں ایک گھر میں پانچ بہنوں کو سی ایس ایس کرنے کا منفرد اور قابل فخر اعزاز حاصل ہوا۔ شاید کہ یہ اعزاز مستقبل میں بھی کسی خاندان خصوصاً لڑکیوں کو حاصل ہو سکے۔
ملکی اور عالمی میڈیا نے اس منفرد اعزاز کو نمایاں کوریج اور تبصروں سے نوازاجس کے باعث عالمی سطح پر پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا کا وقار بہت بلند ہوا اور اس تاثر کی نفی ہوئی کہ یہ خطہ صلاحیت، مثبت رجحانات یا جدید تقاضوں سے محروم ہے۔ اس قابل فخر باب کا کریڈٹ پانچوں بہنوں کی محنت اور تربیت کے علاوہ ملک رفیق اعوان اور ان کی اہلیہ خورشید بیگم کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی اولاد کے علاوہ اپنے علاقے کے صوبے اور ملک کو بھی قابل فخر بنایا۔