ایف آئی آر میں مزید دفعات ڈالنے کو تیار ہیں

آئی جی خیبر پختونخواہ ثناءاللہ خان عباسی نے کہا ہے کہ خیبر پختونخواہ کی پولیس فورس میں عوام کے تحفظ کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مثالی قربانیاں دی ہیں تاہم چند کالی بھیڑوں اور گندے انڈوں کی غیر قانونی حرکت اور اقدامات نے پولیس کی مجموعی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے جس کا حکومت کے علاوہ اُن کو خود بھی بہت افسوس ہے اور پوری حکومت حرکت میں آ چکی ہے۔
ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کو پولیس سربراہ کی حیثیت سے واقعہ تہکال کا بہت افسوس ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایس ایس پی آپریشنز سمیت متعدد دوسرے ذمہ داران کے خلاف نہ صرف سخت ایکشن لے کر ایک بااختیار انکوائری تشکیل دی ہے بلکہ وہ جوڈیشل انکوائری سمیت ہر ممکنہ اقدام اور سزا کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہم عوام کو جوابدہ ہیں اور اس ضمن میں واقعہ کے ذمہ داروں کے ساتھ اس تاثر کی بنیاد پر کوئی رعایت نہیں کی جائے گی کہ پیٹی بند ہونے کے ناطے ان کو معاف کیا جائے یا ان کو سزا سے بچایا جا سکے۔ ہم وزیراعلیٰ کی جوڈیشل انکوائری کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہر معاشرے اور ہر ادارے میں گندے انڈے اور منفی عناصر ہوتے ہیں اس لیے اس واقعے کی آڑ میں ڈیڑھ لاکھ اُس پولیس فورس کو مجرم قرار دینا درست نہیں ہوگا جنہوں نے جرائم کے خاتمے کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں حالانکہ حالیہ واقعے نےہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے اور ہمیں متاثرہ خاندان کے علاوہ عوام کے جذبات اور بے چینی کا احساس ہے۔ ان کے مطابق ہم سزا اور جزا کے سخت عمل کے علاوہ پولیس کی تربیت اور اصلاحات پر بھی بھرپور توجہ دے رہے ہیں اور ذمہ دار افراد کو نشان عبرت بنایا جائے گا ۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر بعض قانونی ماہرین کو اس بات پر اعتراض ہے کہ ایف آئی آر میں بعض درکار دفعات شامل نہیں کیے گئے ہیں تو ہم متاثرہ خاندان اور وکلا ءکے کہنے پر مزید دفعات شامل کرنے کوبالکل تیار ہیں۔ان کے مطالبات کا احترام کیا جائے گا اس کے علاوہ ہم نے حکومت کو یہ بھی لکھ دیا کہ اگر وہ اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری چاہتی ہے تو ہم اس کا نہ صرف خیر مقدم کریں گے بلکہ بھرپور تعاون بھی کریں گے تاکہ اس واقعے کو مثال بنا کر آئندہ کے لئے ایسے افسوس ناک واقعات کا راستہ روکا جاسکے۔
آئی جی نے مزید بتایا کہ گزشتہ روز پشاور میں ایک احتجاجی مظاہرے پر باامر مجبوری آنسو گیس کا استعمال کیا گیا کیونکہ مظاہرین بہت زیادہ مشتعل تھے اور ان میں سے بعض نے پرامن اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑ ڈالی تھی۔ ہم پر امن احتجاج کو عوام کا حق سمجھتے ہیں مگر عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حکومتی اقدامات پر اعتماد کر کے ہمارے ساتھ تعاون کریں اور صوبے کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ذمہ دار افراد کو نشان عبرت بنا کر عوام اور متاثرہ خاندان کو مایوس نہیں کریں گے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ سانحہ تہکال نے معاشرے کو خوفزدہ کر دیا ہے اور پولیس کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے تاہم اس واقعے کے بعد حکومت جس طریقے سے حرکت میں آئی ہے اور مختلف اقدامات کے ذریعے اس واقعے کی جو تلافی کی جا رہی ہے وہ کافی حد تک اطمینان بخش ہے۔ اس ضمن میں پشاور ہائی کورٹ ےنے سوموٹو ایکشن بھی لیا ہے جہاں گزشتہ روز آئی جی اور دیگر متعلقہ حکام پیش ہوئے۔ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے بھی اپنے ریمارکس میں عوامی جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے حکومت کو سخت اقدامات کی ہدایات کیں جبکہ بعض دیگر کے علاوہ مشیراطلاعات اجمل وزیر صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی خصوصی ہدایت پر متاثرہ خاندان سے ملنے گئے ۔اس کے علاوہ ایم این اے ارباب شیر علی بھی ملنے گئے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ درکار عملی اقدامات کے نتائج کا انتظار کیا جائے اور احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد اور توڑ پھوڑ سے گریز کیا جائے کیونکہ ہمارا صوبہ اور معاشرہ محاذآرائی ، منافرت اور کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket