معتبر عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پڑوسی ملک افغانستان میں دوحا معاہدے کے باوجود امن وامان کی مجموعی صورتحال بہت خراب رہی اور ہزاروں لوگ دو طرفہ حملوں کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کہا جا رہا ہے کہ 2002 کے بعد اب تک دو لاکھ 41 ہزار افراد جاں بحق ہوئے جبکہ تین ٹریلین ڈالر خرچ کیے گئے۔
جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2020 کے دوران 34 صوبوں میں مجموعی طور پر امریکی اور افغان فورسز کے ہاتھوں 1840 عام شہری جاں بحق ہوگئے جبکہ دو ہزار شہری زخمی ہوئے۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں یکم جنوری سے 30 نومبر تک حملوں اور تشدد کے 7845 واقعات ہوئے جن کے نتیجے میں 2711 ہلاکتیں ہوئیں جب کہ 5140 افراد زخمی ہوئے ۔
یو نامہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 46فیصد حملوں میں افغان طالبان ملوث رہے ہیں تو دوسری طرف 22 فیصد واقعات افغان فورسز اور 4 فیصد میں امریکی اور نیٹو فورسز ملوث رہی ہیں۔ یو این رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 21-2020 کے عرصے میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 35 سے 40 فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ علماء کونسل نامی فورم کے مطابق اس عرصہ میں 92 علماء کو حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے نتیجے میں زندگی سے محروم کیا گیا۔
اکتوبر 2020سے 31 جنوری 2021 کے عرصہ کے دوران محض چھ ماہ کی مدت میں انسانی حقوق اور میڈیا کے تقریباً 15 افراد کو جان سے مارا گیا۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق دوحا معاہدے کے بعد کےایک برس کی مدت میں افغانستان کے 42 فیصد علاقوں میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
افغان وزارت دفاع کے مطابق افغان فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں 1800 طالبان کو جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ تاہم دوسری طرف ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020-21 کے دوران طالبان کے ساتھ جھڑپوں، بم دھماکوں اور حملوں میں مجموعی طور پر افغان فورسز کے پانچ ہزار سے زائد اہلکار جاں بحق جبکہ سات ہزار زخمی ہوئے۔ طالبان نے افغان وزارت دفاع کے دعوے کو غلط قرار دے دیا ہے۔
ان رپورٹ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف طالبان نے ریکارڈ حملے کیے اور مزید کا اعلان کر رکھا ہے تو گزشتہ چند ماہ کے دوران افغان فورسز نے بھی ریکارڈ کاروائیاں کیں جس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ اگر کشیدگی بڑھ گئی تو صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔ دوسری طرف ڈاکٹر اشرف غنی نے ایک بار پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس سے بد اعتمادی اور کشیدگی کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔