کس کا دماغ کس کا ہاتھ ؟
عقیل یوسفزئی
پروپیگنڈا مختلف ادوار میں مختلف ریاستوں ، نظریات اور گروپوں کا نہ صرف محبوب مشغلہ رہا ہے بلکہ اس کی ضرورت اور استعمال میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ ماہرین پروپیگنڈا کو دنیا کا خطرناک ترین ہتھیار قرار دیتے آئے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ہتھیار کسی بھی وقت کسی کے خلاف بھی کوئی بڑی سرمایہ کاری کیے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے محض ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاہم جدید دور میں پروپیگنڈا نامی سبجیکٹ نے نہ صرف یہ کہ ایک خطرناک اور پیچیدہ ہتھیار کی شکل اختیار کرلی ہے بلکہ اب اسے ایک باقاعدہ بزنس کی صورت میں بھی ڈیل کیا جاتا ہے ۔ روس نے چند برس قبل ایک امریکی الیکشن کمپین میں انٹرنیٹ ٹولز کے ذریعے ایک مخصوص لابی یا امیدوار کے پس منظر میں جو پروپیگنڈا مہم پلان کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے اس پر امریکی ادارے ابھی تک حیران اور پریشان ہیں ۔ اس طریقہ کار نے دنیا پر ثابت کیا کہ جدید دور کے پروپیگنڈا ہتھیاروں کی نوعیت نہ صرف تبدیل ہوگئی ہے بلکہ یہ انتھائی خطرناک نتائج بھی دے سکتا ہے ۔ پاکستان کو بھی ایسے ہی ایک خطرناک پروپیگنڈا وار کا سامنا ہے ۔ اس جنگ کے دوران جہاں ایک طرف ایک بڑی سیاسی پارٹی اور اس کی ہم خیال قوتوں نے بہت بڑے پیمانے پر مختلف صورتوں میں سرمایہ کاری کی وہاں کوشش کی گئی کہ پاکستان کے ریاستی اور سیاسی ڈھانچے کو گرانے کے لیے مخصوص قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں ۔ اس جنگ کو ابتداء میں مقامی ردعمل یا جذباتی مزاحمت سمجھ کر نرمی کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم 9 مئ 2023 کے پرتشدد واقعات کے بعد جب اس معاملے کی سنجیدگی کے ساتھ ایک بڑے فریم ورک میں تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ معاملہ اتنا سادہ اور مقامی نہیں ہے جتنا سمجھا گیا ۔ انکشافات سامنے آگئے کہ اس تمام پراسیس کو پوری پلاننگ کے تحت ایک ہمہ گیر انویسٹمنٹ کے ذریعے آگے بڑھایا گیا اور اس تمام پروپیگنڈا وار پر عالمی سطح پر بڑی سرمایہ کاری کی گئی ۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ پاکستان کی ریاست اور معاشرے کو ٹارگٹ کرکے کمزور کیا جائے اور عام لوگوں بالخصوص نئی نسل کو یہ باور کرایا جائے کہ اگر ایک مخصوص پارٹی اور اس کی قیادت کے ہاتھ میں پاکستان نہ ہو تو یہ ملک اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ پائے گا ۔ اس مقصد کی حصول کے لیے ایک مخصوص لیڈر کی ایک دیو مالائی شخصیت بنائی گئی اور اس لیڈر کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی ایسی شخصیت کے طور پر متعارف کرایا گیا جیسے وہ دوسروں سے بہت مختلف اور منفرد ہو۔ اس شخصیت سازی میں عین اس نوعیت کا طریقہ کار اپنایا گیا جیسے کہ کئی دہائیوں قبل جرمنی اور یورپ میں ہٹلر کی مقبولیت کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔ بار بار یہ بتانے اور منوانے کی کوشش کی گئی کہ مذکورہ لیڈر غیر معمولی اہمیت کے حامل ہونے کے علاوہ غیر معمولی صلاحیتوں کا بھی حامل ہیں ۔ اس مقصد کے لیے خواتین اور نوجوان نسل کو بطور خاص ٹارگٹ کرت ہوئے استعمال کیا گیا اور ان کے ذہنوں میں یہ بات بھٹائی گئی کہ دوسرے تمام لیڈرز اور ان کے حامی نہ صرف چور ، ڈاکو اور انتہائی نااہل ہیں بلکہ یہ پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہیں ۔
دوسرے مرحلے میں جب مذکورہ لیڈر کو ایک پارلیمانی اور قانونی طریقہ کار کے مطابق اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو اس پروجیکٹ اور پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے پاکستان کے بعض اہم ترین اداروں کو ٹارگٹ بنایا شروع کیا گیا اور ان اداروں میں نہ صرف پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی بلکہ ان کے سربراہان کو متنازعہ بنانے کے لیے ان کی کردار کشی کی مہم چلائی گئی ۔ اس مرحلے کے دوران غیر ملکی پروپیگنڈا مشینری اور انویسٹمنٹ کو بڑے فریم ورک میں استعمال کیا گیا جس کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی گئی ۔ اس تمام تر صورت حال کو پاکستان کے سنجیدہ حلقے اور ادارے بہت غور سے مانیٹر کررہے تھے اور جب پروپیگنڈا مشینری اور اس کی تمام انویسٹمنٹ پوری شدت کے ساتھ استعمال کرکے خود کو ایکسپوز کردیا گیا تو ریاست نے تیزی کے ساتھ حرکت میں آنا شروع کیا اور اب بہت سی چیزیں نہ صرف واضح طور پر دکھائی دینے لگی ہیں بلکہ کاؤنٹر اسٹریٹجی بھی بہت واضح اور عملی شکل اختیار کرگئی ہے ۔ اس تمام گیم کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے عوامی رائے اور شمولیت کے ذریعے ایک مؤثر آپشن کے طور پر 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کا انعقاد انتہائی اہم کا حامل ایونٹ ہے۔ اس ایونٹ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے مخصوص ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں ۔ اگر چہ اب اہل ریاست اور اہل سیاست دونوں بہت الرٹ ہیں اس کے باوجود کوشش کی جائے گی کہ انتخابی عمل کو ایک نئی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے نہ صرف متنازعہ بنایا جائے بلکہ ان اپنے عالمی اور علاقائی اتحادیوں اور حامیوں کے ساتھ ملکر سبوتاژ کیا جائے جو کہ بعض مشترکہ مقاصد کی حصول کے لیے پاکستانی ریاست اور معاشرے پر حملہ آور ہیں ۔ اس تمام صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان خطرناک مقاصد کا از سر نو ادراک کرتے ہوئے منظم صف بندی کی جائے اور اس بات کو تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے یقینی بنایا جائے کہ آیندہ کے لیے کسی کو ایسا کرنے کا موقع نہ ملے۔