پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں اضافہ۔ رواں مالی سال کے پہلے مہینے میں آئی ٹی برآمدات کی ترسیلات 286 ملین ڈالرز تک پہنچ گئیں۔وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کے مطابق گزشتہ مالی سال جولائی کے مقابلے میں رواں مالی سال آئی ٹی برآمدات میں 33.64 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ مالی سال جولائی میں آئی ٹی برآمدات 214 ملین ڈالرز رہیں جبکہ رواں مالی سال کے پہلے مہینے میں برآمدات کی ترسیلات 286 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ مالی سال کے پہلے ماہ کی مجموعی برآمدات میں آئی ٹی کا حصہ 46 فیصد ہے۔وزیر مملکت آئی ٹی شزہ فاطمہ کا کہنا ہے موجودہ حکومت آئی ٹی برآمدات میں مزید اضافے کیلئے کوشاں ہے، اگلے مالی سال آئی ٹی برآمدات کا ہدف 3.5 بلین ڈالر ہے۔
راشد منہاس شہید کا 53 واں یوم شہادت آج منایا گیا
وطن پر اپنی جان قربان کر کے مثال قائم کرنے والے پائلٹ آفیسر نشان حیدر شہید راشد منہاس کا آج 53 واں یوم شہادت منایا جارہا ہے، پاک فضائیہ کے اس نوجوان نے ملکی دفاع کی ایسی داستان رقم کی جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔20 اگست 1971 کو راشد منہاس نے تربیتی پرواز کے دوران اپنی جان اس وقت وطن پر قربان کی جب وہ اپنی تربیتی پرواز پر روانہ ہورہے تھے کہ اچانک ان کے انسٹرکٹر مطیع الرحمان طیارے میں سوار ہوگئے اور جہاز کا رخ دشمن ملک بھارت کی جانب موڑ دیا۔20 سالہ راشد منہاس نے اپنی بہادری اور جذبۂ حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے طیارے کا رخ دشمن کے بجائے زمین کی طرف موڑ دیا اور یوں، اپنے وطن کی حرمت پر جان قربان کر دی۔راشد منہاس کی اس عظیم قربانی پر انہیں پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا اور ان کی یہ قربانی آج بھی ہر پاکستانی کے دل میں جوش و جذبے کی ایک مثال بنی ہوئی ہے۔
پی آئی اے نے کراچی سے جدہ اور مدینہ کیلئے کرایوں میں بڑی کمی کردی
قومی ائیر لائن پی آئی اے نے کراچی سے جدہ اور مدینہ منورہ کے لیے کرایوں میں 30 فیصد کمی کا اعلان کردیا۔کراچی سے جدہ اور مدینہ منورہ کے لیے یکطرفہ کرایہ ٹیکس سمیت 56 ہزار روپے ہوگا اور اس فیصلے کااطلاق فوری ہوگا۔ترجمان پی آئی اے کے مطابق کراچی سے جدہ اور مدینہ منورہ کا دو طرفہ کرایہ 88 ہزار بشمول ٹیکس کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ رعایتی کرایوں کے ٹکٹ 31 اگست 2024 تک جاری کرائے جاسکیں گے، رعایتی کرائے پر 30 ستمبر 2024 تک سفر کیا جا سکے گااور رعایتی کرائے فوری طور پر نافذ العمل ہوں گے۔
پاکستان نے بیلسٹک میزائل شاہین 2 کی تربیتی لانچنگ مکمل کرلی
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق بیلسٹک میزائل شاہین 2 زمین سے زمین پر مارکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔آئی ایس پی آر نے بتایا کہ تربیتی لانچنگ کا مقصدتربیت، تکنیکی پیرا میٹرزکاجائزہ لینا تھا۔ جب کہ اسٹریٹجک پلانزڈویژن، آرمی اسٹریٹجک فورسزکمانڈ، سائنسدانوں اور اسٹریٹجک تنظیموں کے انجینئرزکے سینئر افسران نے بھی تربیتی لانچ کامشاہدہ کیا۔ ڈائریکٹرجنرل اسٹریٹجک پلانز ڈویژن نے تکنیکی مہارت، لگن اورکام کوسراہا۔ صدرمملکت، وزیراعظم، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اورسروسز چیف نے سائنسدانوں اور انجینئرزکو اس کامیابی پرمبارکباد دی۔
گنڈاپورحکومت اِن ٹربل
گنڈاپورحکومت اِن ٹربل
خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی مسلسل تیسری حکومت بھی گزشتہ حکومتوں کی طرح تنازعات کا شکار ہے۔ اس سے قبل جو دو حکومتیں گزری ہیں ان میں بھی ہفتے کے سات، مہینے کے تیس، اور سال کے 365 دن کوئی نہ کوئی ایشو چلتا رہتا تھا۔ وزراء آئے روز ناراض ہوتے، اپنے خدشات و تحفظات کا اظہار کرتے، مستعفی ہوتے یا پھر انہیں برطرف کر دیا جاتا تھا۔
اس پارٹی کو پختونخوا میں حکومت کرتے ہوئے گیارہواں سال چل رہا ہے۔ بیشتر وزراء تیسری بار وزارتوں پر براجمان ہیں مگر ان میں سنجیدگی اور متانت کا فقدان ہے۔ یہ بچگانہ اور لابالی پن سے معاملات چلاتے، دیکھتے اور ڈیل کرتے ہیں۔ نااہلی، بدانتظامی، کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری کا تسلسل موجودہ حکومت میں بھی دوام پذیر ہے۔
گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں جب موجودہ حکومت کی سربراہی کے لیے علی امین گنڈاپور کا نام سامنے آیا تو صوبے کے سنجیدہ و فہمیدہ حلقوں نے خدشات کا اظہار کیا کہ علی امین گنڈاپور کی مجموعی شخصیت خیبرپختونخوا جیسے صوبے کی سربراہی کے لیے غیر موزوں ہے۔ خیبرپختونخوا محل وقوع اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے، بین الاقوامی دلچسپیوں کے حوالے سے اور افغانستان کے بارڈر پر ہونے کے سبب ایک حساس صوبہ شمار کیا جاتا ہے۔
اس صوبے کی سربراہی کے لیے کسی معاملہ فہم، سیاسی سمجھ بوجھ سے بہرہ ور، صلح جو، اور ذہین و فطین شخص کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ عمران خان کو چونکہ عقل کل سمجھا جاتا ہے مگر انہوں نے گزشتہ دو مرتبہ جن دو افراد کو وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا وہ دونوں آج انکی بدترین طرز حکمرانی کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے مستقبل میں اسی قسم کی گفتگو علی امین گنڈاپور سے بھی سننے کو ملے۔
شکیل خان گنڈاپور کابینہ میں سی اینڈ ڈبلیو یعنی کمیونیکیشن اور ورکس کے وزیر تھے۔ گزشتہ ماہ انہوں نے جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے مختلف وزارتوں میں ہونے والی کرپشن سے بانی کو آگاہ کیا۔ ان کی ہدایت پر میں پریس کانفرنس کے ذریعے کرپشن کی نشاندہی کروں گا۔
انہوں نے مختلف وزارتوں خصوصاً اپنی وزارت میں ہونے والی کرپشن اور بدعنوانی پر پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا۔ ان کی گفتگو سے یہی تاثر لیا گیا کہ وہ وزیراعلیٰ پر کرپشن کا الزام لگا رہے ہیں۔ وہ پریس کانفرنس میں جو کچھ کہنا چاہتے تھے انہیں کہنے نہیں دیا گیا، محض خانہ پری کے لیے ایک پریس کانفرنس کروائی گئی جس میں ان کے ساتھ مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کو بطور نگران بٹھا دیا گیا۔
صوبائی حکومت میں کرپشن کا شور اٹھنے پر عمران خان نے بزرگ قانون دان قاضی انور، سابق گورنر شاہ فرمان اور مشیر وزیراعلیٰ مصدق عباسی پر مشتمل گڈ گورننس نامی سہ رکنی کمیٹی قائم کی جسے بدعنوانی کی شکایات پر سفارشات تیار کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔
حیرت انگیز طور پر کمیٹی نے سب سے پہلے اسی وزیر کو بلایا جو کرپشن کے خلاف شور مچا رہا تھا اور مزید باعث تعجب یہ کہ اس وزیر کو برطرف کرنے کی سفارش بھی کی گئی۔ اور سفارش بھی ایسی زوداثر کہ ادھر سفارش ہوئی ادھر وزیر برطرف ہوا۔
کرپشن پر شکیل خان کی برطرفی پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں سے بھی ہضم نہیں ہو رہی۔ سینئر رہنما اور ممبر قومی اسمبلی جنید اکبر کے مطابق، ‘‘وہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر حلف دینے کو تیار ہیں کہ شکیل خان انتہائی ایماندار آدمی ہے۔ دس سال تک وزیر رہنے کے باوجود ان کے پاس ذاتی گاڑی تک نہیں، وہ اکثر اپنے سیکیورٹی گارڈ اور پی ایس کے مقروض رہتے ہیں۔’’
انہوں نے مزید کہا، ‘‘انہیں ہٹانے کے طریقہ کار کی مخالفت کرتا ہوں۔ اگر وہ کرپٹ ہوتے تو خان کو شکایت نہ کرتے۔ اگر میں غلط بیانی سے کام لوں تو مجھ پر اور میرے بچوں پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔’’ جنید اکبر کا نام پہلے سہ رکنی کمیٹی میں شامل تھا مگر بعد میں ان کی جگہ وزیراعلیٰ کے مشیر مصدق عباسی کو شامل کیا گیا۔
حالیہ مؤقف اپنانے پر انہیں ممبران قومی اسمبلی کے لیے فوکل پرسن برائے وزیراعلیٰ کے عہدے سے بھی ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ کرک سے رکن قومی اسمبلی شاہد خٹک کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
سیاسی اور صحافتی حلقوں کے مطابق گڈ گورننس کمیٹی کے نام پر ایک ڈھونگ رچایا گیا۔ اس کمیٹی کی پہلی سفارش ہی متنازعہ حیثیت اختیار کر گئی۔ اگر اس نے دو چار اس قسم کی مزید سفارشات پیش کیں تو دیگر کا علم نہیں مگر قاضی انور جیسے بزرگ قانون دان تنازعات کا شکار ہو جائیں گے اور انہیں عزت سادات بچانے کے لیے ضعیف العمری میں دوگنی محنت کرنی پڑ سکتی ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ شکیل خان سے ناخوش تھے اور یہ ناخوشی کمیشن وغیرہ کے سبب تھی۔ اس سلسلے میں سات ارب روپے کا ایک مبینہ سکینڈل بھی سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔
گزشتہ شب پی ٹی آئی کے پارلیمنٹرین واٹس ایپ گروپ میں وزیراعلیٰ اور شکیل خان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق دونوں کے درمیان جھڑپ ایک گھنٹے تک جاری رہی جس میں دونوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے اور شکیل خان نے وزیراعلیٰ کو بے اختیار ہونے کا طعنہ بھی دیا۔
جھڑپ کے دوران ہی شکیل خان نے وزارت سے استعفیٰ دیا جس پر وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی انہیں فارغ کر چکے ہیں۔ شکیل خان کا کہنا ہے کہ وہ ‘‘اسمبلی فلور پر تفصیل سے بات کریں گے۔ عوام نے پی ٹی آئی کو جس مقصد کے لیے ووٹ دیا ہے حکومت اس سے ہٹ چکی ہے جس کے سبب عوام پارٹی سے متنفر ہو رہی ہے۔ میں کسی بھی فورم پر خود کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔’’
گورنر کو ان کی برطرفی کی سمری موصول ہونے پر انہوں نے اس کی منظوری دے دی، مگر ان کا کہنا تھا کہ شکیل خان کو حکومتی کرپشن بے نقاب کرنے پر وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ جس نے بھی حکومت کی کرپشن کو بے نقاب کیا، اس کے خلاف کارروائی ہوئی حالانکہ وزیراعلیٰ کو خود مستعفی ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ ان کے خلاف کرپشن کی چارج شیٹ پیش کی گئی ہے۔
سابق سینئر وزیر اور ممبر قومی اسمبلی عاطف خان کا کہنا ہے کہ شکیل خان کے خلاف سازش کی گئی۔ اس سازش کے دو کرداروں کو وقت آنے پر بے نقاب کروں گا۔ دو مزید وزراء کے مستعفی ہونے اور اس کے بعد پانچ مزید استعفوں کی افواہیں بھی گرم ہیں۔
اس ہلچل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی تیسری حکومت ابتدائی پانچ ماہ میں ہی اختلافات کا شکار ہو چکی ہے۔ اور یہ اختلافات عوامی مسائل و مشکلات کے لیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی کرپشن، بدعنوانی اور نااہلی بے نقاب کرنے کا شاخسانہ ہیں۔
اندرونی اختلافات، کرپشن، بیڈ گورننس اور نا اہلی کے سبب گنڈاپور حکومت اِن ٹربل ہے۔ اگر مزید استعفے آتے ہیں یا برطرفیاں ہوتی ہیں تو انہیں اپنی پوزیشن برقرار رکھنا مشکل تر ہو جائے گا۔
عدلیہ اورپارلیمنٹ
عدلیہ اورپارلیمنٹ
وطن عزیز میں بلاشبہ جمہوریت رائج ہے اور اگر جمہوریت کے معنی الٹے سیدھے طریقوں سے اقتدار کا حصول ہے تو اس پر بھی یہاں دل و جاں سے عملدرآمد ہوتا ہے چونکہ نظام چلانے والے نہ ہی تو ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں اور نہ ہی اس نظام سے جس نظام کے تحت وہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہیں اور حکمرانی فرماتے ہیں۔
جمہوریت کی اصل روح اور بنیادی جزو برداشت ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اقوام جہاں جمہوری طرز حکومت قائم ہے وہاں ہارنے والا جیتنے والے کو مبارکباد دیتا ہے اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود کی خاطر اٹھائے گئے ہر اقدام کی حمایت کا یقین دلاتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ جمہوریت نے ابھی گوڈوں پر چلنا شروع کیا ہے اور ہم جمہوریت کے ابتدائی مرحلے میں ہیں اس لیے ہمارے ہاں عدم برداشت کا دور دورہ ہے۔ ہر جیتنے والا انتخابات کو منصفانہ جبکہ ہارنے والا دھاندلی زدہ قرار دیتا ہے۔ ہارنے والا روز اول سے ہی اسی تگ و دو میں مصروف ہوجاتا ہے کہ وہ کن داؤ پیچ سے حکومت کی تانگیں کھینچنے اور اسے گرانے میں کامیاب ہوگا؟
اس چومکھی لڑائی میں وہ اقدار و روایات اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقتدار کی حصول کیلئے ہر حد پھلانگ دیتا ہے۔ ہارنے والے کو موقع ملتا ہے تو وہ فوج اور عدلیہ کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتا ہے، اسے اپنی حمایت کا یقین دلاتا ہے اور اپنی خدمات پیش کرنے میں ذرا سا بھی تامل نہیں کرتا۔
آج تک ہمارے ہاں جتنے بھی مارشل لاز لگے ہیں سیاستدانوں کے ایک بڑے گروہ نے اس کا خیرمقدم کیا ہے اور اپنے تعاون کا نہ صرف یقین دلایا ہے بلکہ عملاً حکومت میں شمولیت بھی اختیار کی ہے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کی مارشل لاؤں کی انہی سیاستدانوں نے حمایت کی بلکہ حکومت میں شامل ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق مارشل لا کے ساتھ بھی انہی سیاستدانوں نے تعاون کیا اور آج جتنے بزعم خود جمہوریت کے چیمپئن سیاستدان ہیں ان کے آباء و اجداد فخریہ انداز میں کابینہ کا حصہ بنے۔ اسی طرح مشرف مارشل لا بھی سیاستدانوں کے تعاون سے ہی دوام پذیر رہا۔
مشرف دور سے ایک نئی روایت نے جنم لیا۔ جب اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری نے اپنی برطرفی پر سٹینڈ لیا اور اسے جمہوریت سے جوڑ دیا تو خود کو جمہوریت پسند کہلوانے والے تمام سیاستدان افتخار چوہدری کے گرد اکٹھے ہوگئے۔ صبر آزما جدوجہد کے بعد جب انتخابات منعقد ہوئے اور نام نہاد جمہوریت بحال ہوئی تو اسی افتخار چوہدری نے حکومت کو سانس لینے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا اور اسے کبھی ایک تو کبھی دوسرے بہانے تنگ کرنا شروع کردیا۔
تب سے پاکستانی سیاستدانوں نے یہ بھانپ لیا ہے کہ اقتدار کے حصول میں عدلیہ بھی معاون کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ 2014ء میں عمران خان دھرنے کے دوران پی ٹی آ ئی کے صدر جاوید ہاشمی نے ایک تہلکہ خیز انکشاف کیا اور ڈنکے کی چوٹ پر الزام لگایا کہ پی ٹی آئی قیادت ایک جج کے چیف جسٹس بننے کے انتظار میں ہے تاکہ وہ چیف جسٹس بن کر حکومت کی رخصتی عمل میں لائیں۔
اس کے بعد تقریباً ہر چیف جسٹس سے یہ توقع وابستہ کی گئی کہ وہ حکومت کو کسی نہ کسی بہانے رخصت کرکے اپوزیشن کی اقتدار کیلئے راستہ ہموار کریں گے اور بدقسمتی سے گنتی کے چند ججز اقتدار کی لڑائی میں فریق بھی بنے اور یہی سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ملک کے طول عرض میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کون سا جج کس پارٹی کو فیور دیتا ہے اور کس کی مخالفت پر کمر بستہ نظر آتا ہے۔
گزشتہ انتخابات میں جو کچھ ہوا اس پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں مگر پی ٹی آئی سے الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی پر اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا جو بالکل درست عمل تھا اور اس عمل کو سپریم کورٹ کے بنچ نے لائیو سماعت کے دوران درست قرار دیا۔ اگر سیاسی جماعتیں الیکشن قوانین پر عملدرآمد نہیں کرتیں، اسے پرکاہ برابر اہمیت نہیں دیتیں، اس کا مذاق اڑاتی ہیں اور خود کو ان قوانین سے مبرّا سمجھتی ہیں تو الیکشن کمیشن کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی جماعتوں کے خلاف اپنے دائرۂ اختیار کے تحت کارروائی کرے۔
پی ٹی آئی کو تین مرتبہ انٹرا پارٹی انتخابات کا موقع فراہم کیا گیا مگر اس کے قائد جو خود کو اس پارٹی کے ایم ڈی سمجھتے ہیں اور گزشتہ اٹھائیس برس سے اس کے چیئرمین بنے بیٹھے ہیں، اگر انہیں الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کی ہدایت کرے اور وہ تین بار ہدایات کے باوجود ایسا نہ کریں تو الیکشن کمیشن کے پاس کیا چارہ رہ جاتا ہے؟ پھر الیکشن کمیشن نے اس جماعت کے خلاف جو فیصلہ دیا اسے سپریم کورٹ نے لائیو سماعت کے دوران شفاف انداز میں برقرار رکھا۔
انتخابات کے بعد اگر تحریک انصاف قیادت کے پاس فہم و فراست کی کمی تھی اور انہوں نے اپنے منتخب ارکان کو اپنی جماعت میں شامل کروانے کی بجائے ایک اور جماعت ہائیر کرلی اور یہ سب اس میں شامل ہوئے تو اس میں زیادتی والی کون سی بات آگئی؟ الیکشن کمیشن نے اس جماعت سے انتخابی نشان چھینا تھا، اسے کالعدم قرار نہیں دیا تھا، اس کے ارکان اپنی پارٹی میں شامل ہو سکتے تھے مگر پارٹی قیادت نے معقول طرز عمل اپنانے کی بجائے ایک ایسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جس نے نہ ہی انتخابات میں بطور سیاسی جماعت حصہ لیا تھا اور نہ ہی مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن کمیشن کے پاس نام جمع کروائے تھے۔
اس کے باوجود سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔ عدالت عظمیٰ نے ان کی درخواست تو مسترد کر دی مگر اس میں شامل ہونے والے اراکین کو تین ہفتے کا وقت دیکر پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی ہدایت کر دی۔ سنی اتحاد کونسل کو لینے کے دینے پڑ گئے۔
اس فیصلے پر سنجیدہ نوعیت کے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے ارکان کو سپریم کورٹ ہدایت کرتی ہے کہ وہ دوسری جماعت میں شامل ہو جائیں۔ اس عمل سے فلور کراسنگ کا موجودہ قانون عضوئے معطل بن کر رہ گیا۔
(جاری ہے)
— وصال محمد خان