عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہ سیاسیات کے زیر اہتمام مین کیمپس میں دو روزہ فن فئیر شروع ہو گیا۔ سٹی مئیر حمایت اللہ مایار نے فن فئیر کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے علاؤہ مختلف اداروں نے سٹال لگائے تھے جن میں کھانے پینے کی اشیاء، مختلف روایتی مصنوعات اور مختلف شعبوں میں کنسلٹنسی فرمز شامل تھے۔ فن فئیر میں یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات اور فیملیز نے گہری دلچسپی لی۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سٹی مئیر حمایت اللہ مایار نے کہا کہ ملک کے معروضی حالات میں امن کے نام سے اس قسم کی سرگرمی تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماجی علوم باالخصوص سیاسیات کے ماہرین دنیا میں جاری جنگوں اور انتہا پسندی کے رحجانات کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ انسانی حقوق کے احترام اور اظہار رائے کی آزادی کو تسلیم کیا جائے۔ حمایت اللہ مایار نے کامیاب امن فن فئیر کے انعقاد پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظاہر شاہ، شعبہ پولیٹیکل سائنس کے فیکلٹی اور طلبہ و طالبات اور آرگنائزرز کو مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان نے قلیل عرصے میں نمایاں ترقی کی ہے اور صوبائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی خدمات کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ حمایت اللہ مایار نے فن فئیر میں لگائے گئے سٹالز کا معائنہ کیا اور طلبہ و طالبات سے بات چیت کی اور فن فئیر میں ان کی دلچسپی کو سراہا۔ انہوں نے اس موقع فیکلٹی اور آرگنائزرز میں توصیفی اسناد بھی تقسیم کیے۔
لوئر چترال: پولیس ڈرائیونگ سکول میں کلاسز کا باقاعدہ آغاز
ریجنل پولیس آفیسر ملاکنڈ عرفان اللہ خان اور ڈسٹرکٹ پولیس آفسیر لوئر چترال افتخار شاہ کے ہدایات پر پولیس خدمت مرکز زرگراندہ میں پولیس ڈرائیونگ سکول میں کلاسز کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے۔ جس میں 26 (میل اور فیمل) امیدواروں نے داخلے لیکر اس پروگرام سے مستفید ہورہے ہیں۔ پولیس ڈرائیونگ سکول کا مقصد شہریوں کو ڈرائیونگ سکھانے کے ساتھ ساتھ ٹریفک رولز اور سگنلز آگاہی فراہم کرنا ہے ۔ بہترین نتائج کے حصول کی خاطر اس پروگرام کے لئے قابل اساتذہ کا انتخاب کیا گیا ہے جو تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل ڈرائیونگ بھی سکھا رہے ہیں۔ پروگرام کے اختتام پر ٹرینیز کو کورس مکمل کرنے کا سرٹیفیکیٹ اور ڈرائیونگ لائسنس دیا جائے گا۔
نوشہرہ’’عوامی رابطہ مہم‘‘کے سلسلے میں کھلی کچہری کا انعقاد
نوشہرہ۔ضلع بھر میں عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں آج تھانہ بدرشی میں کھلی کچہری کا انعقاد۔ کھلی کچہری میں منتخب عوامی نمائندوں ،معززین علاقہ اور علاقہ تھانہ بدرشی کے عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقدم خان SDPO کینٹ سرکل ،محمد علی خان SHO تھانہ بدرشی نے دل کھول کر عوامی مسائل سنے۔ تفصیلات کے مطابق۔ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد اظہر خان کی خصوصی احکامات کی روشنی میں تھانہ بدرشی میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر SDPO کینٹ نے شرکاء سے کہا کہ ہم پولیس عوام ساتھ ساتھ ہیں اور عوامی تعاون کی بدولت ہی جرائم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کھلی کچہری کا مقصد عوام اور پولیس کے درمیان فاصلہ کم کرکے ان کو درپیش مسائل کا ازالہ کرنا ہے۔ علاقہ میں منشیات فروشوں کی نشاندھی کرکے اپنے بچوں، جوانوں کے مستقبل کو نشے کی لعنت سے محفوظ بنائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شادی بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرنے سے خود بھی اور اپنے رشتہ داروں،دوست احباب ،اہل علاقہ کو منع کریں کیونکہ آپ کی فائر کردہ ایک آندھی گولی کسی بھی نے گناہ کی جان لے سکتی ہے۔ایک انسان کی جان لینا پوری انسانیت کی جان لینے کے مترادف ہے۔ پبلک لیزان کونسل کے ممبران سے کہا گیا کہ اپنے علاقہ میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر کرایہ داروں کی خبر گیری کریں۔ عوامی نمائندوں اور عوام نے درپیش مسائل کی طرف توجہ مبذول کروائی جس پر فوری حل کے احکامات جاری کیے گئے۔ کھلی کچہری کے تمام شرکاء نے نوشہرہ پولیس کی عوامی رابطہ مہم کی اس کاوش کو سراہا۔
مردان میں آج بچوں کےعالمی دن کے موقع پر پروگرام کا انعقاد
پاکستان سمیت دنیا بھر مردان میں بھی بچوں کا عالمی دن منایا گیا۔ اس حوالے سے مینسٹوری اینڈ سکول سسٹم شیخ ملتون ٹاون مردان میں این سی ایچ ڈی کے تعاون سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں این سی ایچ ڈی کے ڈپٹی ڈائریکٹر لعل محمد طورو،اسسٹنٹ ڈائر یکٹر این سی ایچ ڈی عابد علی اور سکول کے پرنسپل نے شر کت کی،تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لعل محمد طورو نے کہا کہ آج بچوں کے عالمی دن کو منانے کا مقصد بچوں کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنا، ان کے روشن مستقبل اور تحفظ کے حوالے سے آگاہی دینا ہے-سکول کے بچوں نے خوبصورت تقاریر اور ٹیبلوز پیش کر کے حاضرین کے دل جیت لئے۔مقررین نے کہا کہ بچوں کا عالمی دن منانے کا مقصد بچوں کو صحت مند ماحول اور تحفظ فراہم کرنا ہے کیونکہ بہتر اور صحت مند ماحول میں پرورش پاکر ہی بچہ ایک اچھا انسان بن سکتا ہے۔
خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں کوالٹی ایوارڈزکی تقریب کاانعقاد
خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کےا یم یو)کے کوالٹی اینہانسمنٹ سیل (کیو ای سی)کے زیر اہتمام کوالٹی ایوارڈ ز کی تقسیم کے حوالے سے ایک اہم تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد یونیورسٹی کے اپنے ذیلی اور ملحقہ اداروں میں کوالٹی اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دینا تھا۔ یہ اقدام کے ایم یو میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کوالٹی ایشورینس ایجنسی کی گائیڈ لائنز کی روشنی میں پہلے سے نافذ کردہ کوالٹی اینہانسمنٹ اقدامات کو اس کے ذیلی اور الحاق شدہ میڈیکل، ڈینٹل، نرسنگ اور الائیڈ ہیلتھ سائنسزسمیت صحت سے متعلق دیگر تعلیمی اداروں تک وسعت دینے کے ایک بڑے قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔واضح رہے کہ کیو ای سی نے سال 24-2023 کے لیے معیاری ایشورینس کے اہداف مقرر کیے، جو تقریب کے دوران رسمی طور پر پیش کیے گئے اور تفصیل سے زیر بحث آئے۔ کوالٹی ایوارڈزکی تقسیم کی تقریب کے دوران کے ایم یو کے ذیلی اور الحاق شدہ میڈیکل،ڈینٹل،نرسنگ اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز اداروں اور کے ایم یو کے انتظامی شعبوں کے علاوہ مختلف اداروں کے بیسٹ ٹیچرز اور کیو ای سی سٹاف کو بہترین کارکردگی پر ایوارڈز سے نوازا گیا۔کیو ای سی کی ایوالویشن کے مطابق الحا ق شدہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں وومن میڈیکل کالج ایبٹ آباد نے اول،ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد نے دوم ،جناح میڈیکل کالج پشاور نے سوم،الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے شعبے میں این سی ایس اسلام آباد نے پہلی،تسلیم کالج آف نرسنگ مٹہ سوات نے دوسری،پریمیئر کالج آف ہیلتھ اینڈ منیجمنٹ سائنسز پشاور نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔کے ایم یو کے اپنے ذیلی اداروں میں کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کوہاٹ نے اول اور کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹل سائنسز کوہاٹ نے دوم پوزیشن حاصل کی ، پوسٹ گریجویٹ اداروں میں کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف فارما سیوٹیکل سائنسز نے پہلی پوزیشن حاصل کی جبکہ ایڈمن سیکشنز میں وی سی سیکریٹریئٹ پہلے،ٹریژرر دوسرے اور رجسٹرار تیسرے نمبر پر رہے جب کہ کے ایم یو میں کاغذ فری ای فائلنگ سسٹم متعارف کرانے پر ڈپٹی ڈائریکٹر ویب شہزاد خان کو بھی بہترین کارکردگی پر خصوصی ایوارڈ سے نوازا گیا۔تقریب میں مختلف جامعات کے وائس چانسلرز ،اداروں کے سربراہان،فیکلٹی اور طلباء وطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔تقریب کے مہمان خصوصی ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اسلام آباد کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء القیوم نے بہترین کارکردگی دکھانے والے اداروں،ایڈمن آفیسرز اور بیسٹ ٹیچرز میں ایوارڈز تقسیم کیے۔ اپنے کلیدی خطاب میں انہوں نے کے ایم یو اور اس کے الحاق شدہ اداروں کو عالمی معیار کی طبی تعلیم اور صحت کے شعبے میں اعلیٰ معیار کے حصول کے عزم پر خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کوششوں کو جاری رکھنا ضروری ہے تاکہ پاکستان کے صحت اور تعلیم کے شعبے کی عالمی ساکھ میں مزید اضافہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ 2002 میں 50 جامعات سے اپنا سفر شروع کرنے والی ایچ ای سی کے ساتھ اس وقت ملک بھر میں ان کی تعداد265 تک پہنچ چکی ہے۔ایچ ای سی نے گزشتہ بیس الوں کے دوران ہائر ایجوکیشن کے شعبے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جوکامیابیاں حاصل کی ہیں وہ واضح وژن کے ساتھ ساتھ بہترین ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔آج کے مسائل اور چیلنجز گذشتہ کل کے مسائل سے مختلف ہیں آج کا سب سے بڑا چیلنج کوالٹی کو ہر سطح پر یقینی بنانا ہے،سوشل اکنامک سیکٹر کی ترقی میں ہائیر ایجوکیشن کا اہم کردار ہے ۔جو وسائل آج ہمیں دستیاب ہیں اور اس وطن نے ہمیں جو کچھ دیا ہے وہ ہم پر قرض ہے یہ قرض ہم اپنے فرائض کی بہترین ادائیگی کے ذریعے اتار سکتے ہیں۔ نوجوان نسل سے ہمارے بے تحاشہ توقعات ہیں ،اس مٹی کا ہم پر جو حق ہے وہ حق ہم یہاں خدمت کے ذریعے اداکرسکتے ہیں ۔ انہوں نے ایچ ای سی کے کردار کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ مانیٹرنگ اور ایکیڈمک آڈٹ ہماری ذمہ داریوں کا بنیادی حصہ ہے،ہائیر ایجوکیشن کمیشن یہ فرض بخوبی ادا کر رہا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم نے کہا کہ طبی تعلیمی ادارے دیگر پیشوں سے مختلف ہیں لوگوں کو شفاء دینا ایک بہت بڑا صدقہ جاریہ ہے۔جو گریجویٹ بطور ایک طبی ادارہ کے ایم یو تیارکررہی ہے وہ ہر لحاظ سے مثالی ہونے چاہئیں۔ آپ کی یہ پروڈکشن دیگر اداروں کے لئے رول ماڈل ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ نیو کوالٹی ایشورنس 2023 پالیسی کو اصلی روح کے مطابق نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح الحاق شدہ اداروں کو ایچ ای سی کے طے شدہ پیرامیٹرز پر انکی روح کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔جامعات کے ساتھ ساتھ معیار کی بہتری کے لیئے الحاق شدہ اداروں پر بھی یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے انہیں از خود طے شدہ سٹینڈرڈز کے مطابق اپنے ایکیڈیمک پروگرامات کو ڈھالنا چاہیے۔ہمیں ہائیر ایجوکمیشن کے ڈر یاخوف یا اسکی مانیٹرنگ رول کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اسکو ایک فرض سمجھ کر کوالٹی کو یقینی بنانا چاہئے۔ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایچ ای سی نے کہا کہ کے ایم یو ان چند تعلیمی اداروں میں ہے جو دنیا بھر میں اپنے خدمات کے ذریعے ملک کا نام روشن کر رہی ہے جس پر اس کی لیڈرشپ،فیکلٹی،ایڈمن اور سپورٹ سٹاف مبارکباد کے مستحق ہیں۔کے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے اپنے خطاب میں یونیورسٹی اور اس کے الحاق شدہ اداروں کی کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس تقریب کے انعقاد کا مقصد کے ایم یو اور اسکے ذیلی اور ملحقہ اداروں میں جزا اور سزا کے کلچر کو پروان چڑھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت صحت اور تعلیم کے عالمی معیار کے حصول میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہے اور صحت کی تعلیم کے معیار پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ قابل قبول نہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء نے بہترین کارکردگی دکھانے والے اداروں کے سربراہان کو مبارکباد پیش کی اور ان پر زور دیا کہ وہ مزید محنت اور جدت کے ساتھ اپنی کارکردگی کو برقرار رکھیں۔ تقریب کے اختتام پر تمام شرکاء نے کوالٹی اشورینس کو ترجیح دینے اور کے ایم یو کے تمام الحاق شدہ اداروں میں مسلسل بہتری کے کلچر کو فروغ دینے کے عزم کی تجدید کی۔#
نئی قیادت
پاکستان تحریک انصاف نے چند ناقابل عمل مطالبات پیش کرتے ہوئے 24 نومبر کو ملک بھر خصوصاً اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ اس احتجاج کے لیے گزشتہ اڑھائی برسوں کی طرح ایک بار پھر خیبرپختونخوا کو بیس کیمپ بنا دیا گیا ہے۔ دو سال قبل محمود خان بطور وزیراعلیٰ اس قسم کے احتجاجوں کو لیڈ کرتے تھے، ان سے قبل پرویز خٹک بھی یہی شغل فرما چکے ہیں، مگر اب علی امین گنڈاپور نے اس سلسلے میں تمام حدود و قیود پار کر دی ہیں۔ وہ اب تک بطور وزیراعلیٰ چار مرتبہ عمران خان کی رہائی کی غرض سے پنجاب اور وفاق پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔
علی امین گنڈاپور اپنے ہر احتجاج کو آخری احتجاج قرار دیتے ہیں۔ کبھی سر پر کفن باندھنے کے بیانات جاری کرتے ہیں تو کبھی وزیراعظم ہاؤس میں گھس کر بیڈروم تک جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس طرح صوبے کی جانب سے وفاق اور پنجاب حکومتوں کے ساتھ یکطرفہ جنگ جاری ہے۔ پنجاب اور وفاقی حکومتیں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، وفاق نے ملکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے انتھک کاوشیں کی ہیں جو کسی حد تک بارآور ثابت ہو رہی ہیں، جبکہ پنجاب حکومت بھی عوامی فلاح و بہبود کے ان گنت منصوبے شروع کر چکی ہے۔
خیبرپختونخوا کی حکومت عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجوں میں مصروف ہے۔ صوبے کے انتظامی معاملات جمود کا شکار ہو چکے ہیں۔ امن و امان کی بدترین صورتحال درپیش ہے، شرپسند عناصر اس قدر طاقت پکڑ چکے ہیں کہ وہ پولیس پوسٹ سے سات اہلکاروں کو ڈنکے کی چوٹ پر اغوا کرتے ہیں اور ریاست کی رٹ کو للکارتے ہیں، مگر حکومت کو عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجوں اور بیانات سے فرصت میسر نہیں۔
اس سلسلے کو بشریٰ بی بی نے مزید مہمیز عطا کی ہے۔ ان کے بارے میں عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ گھریلو خاتون ہیں اور سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں، مگر اب وہ اپنے اعمال و افعال اور اقوال سے خود کو سیاست کا بھرپور حصہ ثابت کر رہی ہیں۔ ان کی جو مبینہ آڈیو سامنے آئی ہے، اس میں انہوں نے جو لب و لہجہ اپنایا ہے اور ممبران پارلیمنٹ و پارٹی عہدیداروں کے لیے جو سخت ہدایات جاری کی ہیں، اس سے واضح ہو رہا ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کو ایک مرتبہ پھر وفاق پر چڑھائی کے لیے نہ صرف تیار کر رہی ہیں بلکہ اس تیاری میں شدت بھی موجود ہے۔
بشریٰ بی بی نے مبینہ آڈیو میں کہا ہے کہ پختون غیرت مند اور جہادی قوم ہے۔ وہ یا تو عمران خان کا پیغام دے رہی ہیں یا پھر اپنے الفاظ استعمال کر رہی ہیں، مگر پختونوں کی غیرت اور جذبہ جہاد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پختون کی اسی غیرت اور جذبہ جہاد سے ماضی میں ان گنت ناجائز فائدے اٹھائے جا چکے ہیں۔ اب بشریٰ بی بی تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے اسی غیرت اور جذبہ جہاد کو ابھارنے پر کمر بستہ نظر آ رہی ہیں۔
بشریٰ بی بی مذہبی ٹچ دینا بھی نہیں بھولیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سچا مسلمان غیرت مند ہوتا ہے، آپ کلمہ گو اور حضرت محمدؐ کے امتی ہیں۔ اس مبینہ آڈیو سے ثابت ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت عمران خان کی رہائی کے لیے تمام حدود پار کرنا چاہتی ہے۔ بشریٰ بی بی نے باقاعدہ طور پر شاید پہلی بار کوئی خطاب کیا ہے جس میں تمام مصالحے ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس احتجاج میں ماضی قریب کی طرح پنجاب یا کسی دیگر صوبے سے کارکنوں کی شمولیت نہ ہونے کے برابر رہے گی۔ بلکہ خیبرپختونخوا کے لوگوں کو وفاقی پولیس، رینجرز یا فوج سے لڑانے کی ایک بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ انقلاب لانا اور ملک کو تلپٹ کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔
ایک صوبے کو وفاق کے خلاف استعمال کرنے کی روش احمقانہ ہے۔ اس صوبے نے مینڈیٹ اس مقصد کے لیے نہیں دیا کہ اس کے وسائل کو یوں ضائع کیا جائے۔ اس جماعت کو اپنی مقبولیت کا اتنا ہی زعم اور یقین ہے تو یہ کراچی سے کوئی لانگ مارچ کریں یا لاہور سے کسی احتجاج کی منصوبہ بندی کریں۔ گزشتہ دو ڈھائی سال سے خیبرپختونخوا کو تختہ مشق بنا دیا گیا ہے۔
حیرت انگیز طور پر وفاقی حکومت شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر طوفان گزرنے کا انتظار کر رہی ہے۔ جس طرح صوبائی حکومت اپنی اصل ذمہ داریوں سے غافل ہے، اسی طرح وفاقی حکومت بھی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کوتاہی برت رہی ہے۔ ایک جماعت کو کیوں کر یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ ایک صوبے کو وفاق کے خلاف استعمال کرے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو؟
تحریک انصاف کو خواتین کی شکل میں نئی قیادت مبارک ہو، مگر نئی قیادت کو سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے کسی قدم سے ملکی سلامتی پر حرف نہیں آنا چاہیے۔ عمران خان کی رہائی احتجاجوں اور بیانات سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے مروجہ طریقہ کار پر عمل کرنا ہوگا۔ ریاست کے تیور سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ کسی دھونس میں آنے والی نہیں۔
وصال محمد خان
خیبر پختونخوا حکومت کا مراکز صحت کو شمسی توانائی پر منتقلی کا فیصلہ
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے چار اضلاع کے تمام مراکز صحت شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مشیر صحت احتشام علی کے مطابق پشاور، صوابی، نوشہرہ، ہری پور کے تمام نان ٹیچنگ ہسپتالوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔ مشیر صحت کا کہنا ہے سولرائزیشن ہیومن کیپٹل انسویسٹمنٹ پروگرام کے تحت ان چار اضلاع کے 195 مراکز صحت کی سولرائزیشن ہوگی۔ ان مراکز صحت میں 151 بنیادی مراکز صحت 25 دیہی مراکز صحت، 13 کیٹگری ڈی ہسپتال اور 6 یٹگری سی ہسپتال شامل ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق پروجیکٹ کا مقصد ان اضلاع میں پرائمری ہیلتھ کئیر کی خدمات کو بہتر بنانا ہے۔
جامعہ پشاور اور سی جی پی اے کے مابین معاہدہ
جامعہ پشاور کے تھنک ٹینک ڈیجیٹل انسائیٹ لیب اور سنٹر فار گورننس و پبلک اکاٶنٹایبلیٹی کے مابین منگل کے روز مفاہمت کی یاداشت پر دستخط ہوۓ ۔ مفاہمت کی یاداشت پر دستخط وائس چانسلر پروفیسر محمد نعیم قاضی اور سنٹر فار گورننس و پبلک اکاٶنٹایبلیٹی کی جانب سے چیف ایگزیٹو محمد انور نے دستخط کئے۔ اس موقع پر ڈیجیٹل انسائیٹ لیب کے کورذینیٹر پروفیسر سجاد احمد جان اور ڈپٹی کورڈینٹر ڈاکٹر فہیم نواز بھی موجود تھے۔ اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر محمد نعیم قاضی نے معاہدہ کو جامعہ پشاور اور علاقائی سطح پر پختونخواہ کو درپیش معاشی اور معاشرتی چیلنجز کے حل کیلۓ موثر پلیٹ فارم قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ پالیسی ڈائیلا گ اورایشوز پر دونوں ادارے مل کر تعاون جاری رکھیں گے۔ سی جی پی اے کےچیف ایگزیٹو محمد انور نے حالیہ این ایف سی پر حالیہ مشاورتی کانفرنس کو مفاہمت کی یاداشت سے قبل ایک خوش آٸند باب قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ معاہدے سے مزید سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ پروفیسر سجاد احمد خان نے معاہدے سے مستقبل میں پالیسی ڈاٸیلاگ سطح پر تحقیقی جرنل کا اجراء میں مدد اور مڈ کریٸر فیکلٹی اور طلباء و طالبات کو تربیتی مواقع میسر آسکیں گے۔ ڈاٸریکٹر پی اینڈ ڈی پروفیسر بشری خان نے کہا کہ معاہدہ سے پالیسی سطح پر غربت کے خاتمے اور معاشی استحکام پر تحقیقی و علمی کام کو فروغ دینے میں مدد ملے گی ۔