تحریر :علی اکبر خان
10 اپریل کو تاریخ اس وقت رقم ہوئی جب ائینی و جمہوری راستے سے ملک کے پہلے وزیراعظم عمران خان کو اعصاب شکن جدوجہد کے بعد متحدہ اپوزیشن نے 174ووٹوں کے زریعے عدم اعتماد سے چلتا کردیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ درکار حدود میں رہ کر تمام اداروں نے ائین و قانون پر عملدرامد میں اپنا مثبت کردار ادا کیا اور یوں ملک اور عوام کی خدمت سے شرسار اپوزیشن نے مسلم لیگ کے رہنما میاں شہباز شریف کو وزارت عظمی کی کرسی براجمان کردیا۔بدترین معاشی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام عمران خان حکومت کی وجوہات ٹہرائی گئیں۔
مگر اب سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف صف ارا متحدہ اپوزیشن میں شامل جماعتیں اقتدار کو دیکھ کر سارے وعدے بھولتی نظر ارہی ہے اگر یوں کہا جائے کہ اقتدار کی بندربانٹ کے چکر میں نکاح سے قبل حلالہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے تو بے جا نہیں ہوگا،ایسی صورتحال میں کہ جب ملک بدترین معاشی صورتحال سے دو چار ہو اور برطرف وزیراعظم کیجانب سے ملک بھر میں مظاہروں کے باعث سیاسی عدم استحکام اور افراتفری پہلے سے ذیادہ ہو ایسے میں وزیراعظم شہباز شریف کا اتنے دن گزرنے کے باوجود کابینہ کی تشکیل میں تاخیر نہ پوری اپوزیشن کے لئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں تھی تاہم اس کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔
کابینہ کی عدم تشکیل اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی ناراضگی کیا ہے،عوام پوچھنا چاہتی ہے کہ کچھ روز قبل عوام کی خدمت کی سرشار سیاسی جماعتوں کو کیا ہوا ،کیوں اچانک جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان حکومت میں بیٹھنا نہیں چاہ رہےتھے؟ ،کیوں ایک زرداری سب پے بھاری خود کو الگ کرکے دوسروں کو موقع دینے کی راگ الاپ رہے ہیں۔
اقتدار کے ایوانوں کی سرگوشیاں سب بتارہی ہیں کہ چائے کی پیالی میں یہ طوفان کیوں ہے ،مولانا اس پر بضد رہے کہ اخری بال تک لڑنے والے کپتان کی حکومت کا تختہ الٹانا سٹریٹ پاور کے بغیر ناممکن تھا اور سٹریٹ پاور کا تقاضا یہی ہے کہ صدارت ،ایک صوبے کی گورنری اوربس کچھ وزارتیں ان کے حوالے کردی جائے ادھر ایک زرداری سب پے بھاری بھی اپنی جوڑ توڑ کی پوری وصولی چاہتے ہیں اور وہ بھی نا صرف اپنے لئےبلکہ ایم کیو ایم،بی این پی ،اے این پی ،محسن داوڑ کے لئے بھی۔۔بقول اصف علی زرداری ان جماعتوں کو اکھٹا کرنا انکی جوڑ توڑ کی مہارت سے ممکن ہواہے، اپنی کابینہ کی تشکیل کے لئے میاں شہباز شریف وسیع القبی کا مظاہرہ کرکے مولانا اور زرداری کو وزراتوں سے رام کر بھی لیں تاہم صدارت کی کرسی ایک ہے اور بندے دو اور مشہور مصداق تو سنا ہوگا دو ملاوں میں مرغی حرام۔
عہدوں کی بندر بانٹ میں مصروف اپوزیشن تاحال ملک کے بڑے طبقے کو عمران خان کی پونے چار سال حکومت کی کمزور کارکردگی پر امادہ کرنے میں بھی ناکام دکھائی دے رہی ہے جبکہ دوسری طرف عمران خان ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جلسوں مظاہروں کے زریعے اپنی حکومت کی ریکارڈ مہنگائی،بیروزگاری ،ڈالر کی تاریخی اڑان اور خراب طرز حکمرانی جیسے ناکامیوں کے باوجود حکومت کی برطرفی کو بڑی تیزی سے امریکی سازش سے برطرف کرنے کے نعرے سے چھپانے میںکامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔
حکومت کی ریکارڈ مہنگائی،بیروزگاری ،ڈالر کی تاریخی اڑان اور خراب طرز ھکمرانی جیسے ناکامیوں کے کے باعث حکومت کی برطرفی کو بڑی تیزی سے امریکی سازش سے برطرف کرنے کے نعرے سے چھپانے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں. ایسے میں وقت کا ضیاع موجودہ حکومت اور اتحادیوں کو مہنگا پڑ سکتا ہے. اس لئے اب یہ لوگ ڈیلیور کرنے پر توجہ دیں۔