عقیل یوسفزئی
پاکستان کو مختلف محاذوں پر متعدد سنگین چیلنجز کا بیک وقت سامنا ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ معاشرہ شدید نوعیت کے تناؤ سے دوچار ہے اور عدم تحفظ کے علاوہ عدم برداشت کے اجتماعی رویوں نے ملک کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنادیا ہے ۔ گزشتہ روز ایک کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے ریمارکس کو بعض اہم لیڈرز نے سمجھے بغیر جس انداز سے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنے کی روش اختیار کی اور جس انداز میں بعض مذہبی اور ریاست مخالف حلقوں نے ان ریمارکس کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ اس کے بہت سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں جس کا تمام فریقین کو ادراک ہونا چاہئے ۔ ریٹنگ کی چکر میں سوشل میڈیا کے علاوہ مین سٹریم میڈیا نے بھی کیس کی حساسیت کو مدنظر رکھے بغیر جس بد احتیاطی کا مظاہرہ کیا وہ طرزِ عمل پیمرا اور دیگر متعلقہ اداروں کی غیر فعالیت کے باعث بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنا ۔ اگر چہ بعض چینلز نے بعد میں اس بگاڑ کو سدھارنے کی کوشش کی تاہم تب تک معاملات ہاتھ سے نکل گئے تھے اور چیف جسٹس کو دوسروں کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے بھی سنگین نوعیت کی دھمکیاں دے ڈالیں ۔ 9 مئی کے واقعات کے ذمہ داران نے بھی حسب سابق اس معاملے کو نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ پوری ریاست کے خلاف بطور ہتھیار خوب استعمال کیا اور اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی جیسے اس فیصلے کے پیچھے کوئی بڑی سازش کارفرما ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی طور ملک ، اس کے اداروں اور عوام کے لیے قابل قبول نہیں نہیں ہونی چاہیے اور جاری پروپیگنڈا کو لگام دینے کے لیے سخت ریاستی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔ اس تمام صورتحال پر قابو پانے کیلئے سیاسی اور مذہبی حلقوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جبکہ میڈیا کو بھی معاملات کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔