کرم میں باقاعدہ آپریشن کا آغاز

بعد از خرابی بسیار حکومت شورش زدہ کرم میں فوجی آپریشن پر مجبور ہوگئی ہے اور اتوار کے روز متاثرہ علاقے بگن میں باقاعدہ آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ اس ضمن میں اعلیٰ حکومتی حکام نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران آپریشن سے متعلق معاملات پر میڈیا اور عوام کو بریفنگ دے دی اور بتایا کہ حکومت نے معاہدے کے باوجود جاری حملوں کی روک تھام کو ممکن بنانے کے لیے باامر مجبوری آپریشن کا فیصلہ کیا کیونکہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرا کوئی آپشن باقی نہیں رہا ہے ۔ حکام کے مطابق کوشش کی گئی کہ عام لوگوں کی معمولات زندگی زیادہ متاثر نہ ہو اور یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میں آپریشن ہورہےہیں وہاں کے متاثرین کو کسی نقصان سے بچنے کے لیے ٹی ٹی پی کیمپس قائم کیے گئے ہیں جن کی تعداد 4 ہے ۔ حکام کے مطابق ریاستی رٹ کے قیام کے لیے بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی اور کسی قسم کی رعایت کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا ۔ ان کے بقول معاہدے کو کامیاب بنانے کےلئے حکومت نے صبر وتحمل کا ہر ممکن مظاہرہ کیا مگر شرپسند عناصر نے کھلی دہشتگردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک امدادی قافلے کو بے دردی کے ساتھ نشانہ بنایا جس کے بعد اعلیٰ سطحی فیصلہ کیا گیا کہ مزید رعایت یا مفاہمت کا امکان باقی نہیں رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرم کے معاملات نے بہت طوالت اختیار کی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں پرامن عوام کو نہ صرف اس کشیدگی کی آڑ میں یرغمال بنادیا گیا بلکہ تین سو کی لگ بھگ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
صوبائی حکومت نے ابتداء ہی سے اس مسئلے کے حل پر پوری توجہ دی ہوتی تو اتنے نقصان اور اب فوجی آپریشن کی نوبت نہیں آئی ہوتی مگر سول حکومت نے معاملات کو ڈیل کرنے میں درکار دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کے باعث پوری دنیا میں پاکستان کے ریاستی رٹ پر سوالات اٹھائے گئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر سخت کارروائی کی جائے اور ملوث گروپوں کو نشانہ عبرت بنادیا جائے کیونکہ مزید کسی رعایت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے ۔ اس ضمن میں سول اداروں کے علاوہ سیاسی قائدین ، علماء اور میڈیا کو بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دینی ہوگی تاکہ دہشتگردی اور شرپسندی کا خاتمہ کردیا جائے۔

عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket