وزیراعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف لیفٹینٹ جنرل سید عاصم منیر سمیت متعدد وفاقی وزراء نے گزشتہ روز بلوچستان کے دارالحکومت کویٹہ کا دورہ کیا جہاں انہیں جعفر ایکسپریس کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے اور سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں بارے بریفنگ دی گئی ۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے ان زخمیوں کی عیادت بھی کی جو کہ دہشتگردی کا نشانہ بنے تھے ۔ اس موقع پر انہوں نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2018 سے قبل دہشتگردی پر قابو پایا گیا تھا مگر دہشت گردوں کی ایک حامی پارٹی ( پی ٹی آئی ) نے افغانستان سے نہ صرف دہشت گرد منتقل کیے بلکہ ان کو یہاں سہولیات بھی فراہم کیں جس کے باعث خیبرپختونخوا اور بلوچستان بدامنی کی لپیٹ میں آگئے اور بلوچ دہشت گردی میں بھی اضافہ ہوا ۔ وزیر اعظم کے مطابق پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کا امن ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی جائے گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز بہادری کے ساتھ دہشتگردوں کے خلاف لڑرہی ہیں اور پوری قوم اپنی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے ۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ حکومت ان دو اہم صوبوں کی سیکورٹی صورتحال پر مزید قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلارہی ہے جس میں تمام سیاسی اور ریاستی اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا جائے گا ۔
جس روز وزیر اعظم ، کابینہ ارکان اور آرمی چیف کویٹہ گئے اسی روز بلوچستان کی ضلع کچھی میں ایک زیر تعمیر ڈیم کے تقریباً نصف درجن ملازمین کو اغواء کیا گیا ۔ دوسری جانب اسی روز وزیرستان اور ٹانک کی سرحدی علاقے جنڈولہ میں سیکیورٹی فورسز کے ایک قلعے پر خودکش حملہ کیا گیا اور ردعمل کے نتیجے میں فورسز کی بروقت کارروائی سے 10 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان دو حساس اور اہم صوبوں کو حالات جنگ کا سامنا ہے اور بعض پاکستان مخالف ممالک بھی ان پراکسیز کو سپورٹ کرتے آرہے ہیں ۔ حکومتی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے علاوہ اس میں مزید نکات شامل کرنے کے لیے بھی مشاورت جاری ہے اور پاکستان بہت جلد اقوام متحدہ میں بھارت اور افغانستان کے خلاف ایک قرارداد لانے کی تیاری بھی کررہا ہے ۔ اس تمام صورتحال کے میں لازمی ہے کہ جاری دہشت گردی کو مقامی مسئلہ سمجھنے کی بجائے خطے میں مصروف عمل عالمی اور علاقائی پراکسیز کے تناظر میں دیکھا جائے اور قومی سلامتی سے جڑے معاملات پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کیا جائے۔
عقیل یوسفزئی
