Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, July 27, 2024

پی ٹی آئی حکومت کی دو سالہ کارکردگی

عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی کی حکومت نے غیر یقینی صورتحال کے باوجود دو سال مکمل کئے ہیں۔ اس عرصے کے دوران عمران خان اور ان کی ٹیم نے الیکشن مہم میں تبدیلی کے جو دعوے اور وعدے کیے تھے ان کے بارے میں حکومت کہتی رہی کہ وہ دو سال تک سابق حکمرانوں کی گندگی صاف کرتی رہی اس لئے حقیقی تبدیلی ممکن نہ ہوسکی جبکہ اپوزیشن کے علاوہ میڈیا اور عوام کی بھی اکثریتی رائے یہ ہے کہ حکومت جو تبدیلی لانے میں ناکام رہی ہے اور عوام نے عمران خان سے جو توقعات وابستہ کی تھی ان کی ٹیم اپنی ناتجربہ کاری اور خراب معاشی حالات کے باعث اُن توقعات پر پوری نہیں اتری۔ دو طرفہ بحث کے باوجود خوش آئند بات یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت اور اسمبلیوں نے دو سال مکمل کئے ہیں اور مقتدر قوتوں نے بھی اس عرصے کے دوران حکومت اور سول اداروں کا ممکنہ ساتھ دے کر خود کو مداخلت سے بچائے رکھا ۔عمران خان کی خوش قسمتی یہ رہی کہ اگر ایک طرف ان کو بوجوہ مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل رہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن بھی اپنی اندرونی بے اتفاقی کے باعث چاہتے ہوئے بھی حکومت کے خلاف کوئی بڑی یا موثر تحریک چلانے میں ناکام رہی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان دو برسوں میں عمران خان کی مخالفت محض بیانات یا بند کمروں کے اجلاسوں تک محدود رہی ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بعض اداروں کے دباؤ کے علاوہ مقبول قیادت کے فقدان کا مسئلہ درپیش رہا جبکہ چھوٹی پارٹیوں کے پاس وہ قوت یا صلاحیت موجود نہیں تھی جس کے ذریعے حکومت کو مشکلات سے دوچار کیا جاسکتا تھا ۔
امریکا کا پاکستان کے اندرونی معاملات میں ہمیشہ بڑا اہم کردار رہا ہے تاہم اس عالمی طاقت نے بھی اس عرصے کے دوران پاکستان یا حکومت کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جبکہ چین نے بعض خدشات کے باوجود پاکستان کی مسلسل حمایت جاری رکھی اور بعض بااثر عرب ممالک کے ساتھ بھی مجموعی طور پر تعلقات بہتر رہے ۔
عمران حکومت نے جہاں فاٹا کو ضم کر کے وہاں عام انتخابات کرانے کا کریڈٹ لیا وہاں اس حکومت نے افغانستان کے ساتھ مثبت تعلقات کے آغاز پر بھی توجہ دیں اور اس سلسلے میں نہ صرف دوحا معاہدے کے قیام میں اہم کردار ادا کیا بلکہ دو طرفہ تلخی کے خاتمے میں بھی مدد دی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان عالمی توجہ کا مرکز بنا رہا اور اس کے کردار کو سراہا گیا ۔
ان دو برسوں کے دوران پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات بہت کشیدہ رہے اور متعدد بار جنگ کے بادل منڈلاتے دکھائی دئے مگر حکومت نے عسکری قیادت کے تعاون سے ممکنہ حد تک بھارت کے عزائم کو ناکام بنایا اور پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے مؤثر طریقے سے پیش کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔
اس عرصے کے دوران ملک کی معیشت میں کوئی بڑی تبدیلی یا بہتری نہیں لائی جا سکی جبکہ کورونا بحران نے رہی سہی کسر بھی پوری کر لی. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیروزگاری اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور عوام کی معاشی اور معاشرتی مسائل بڑھتے گئے ۔ حکومت کو عالمی طاقتوں, مالیاتی اداروں, دوست ممالک اور قرضوں پر انحصار کرنا پڑاجس کے نتیجے میں ملک میں روزگار یا ترقی کا کوئی بھی بڑا یا موثر منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا ۔ جبکہ صوبوں کو بھی بعض بنیادی مشکلات اور شکایات کا سامنا رہا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومت مسلسل تنقید اور اکھاڑپچھاڑ کی زد میں رہی جبکہ سندھ حکومت وفاق کے ساتھ بوجوہ محاذ آرائی میں مصروف رہیں اور اس کا نتیجہ عوام کو مسائل میں اضافے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ بیروکریسی عدم تعاون کے رویے پر چلتی دکھائی دیں تو نیب نے اکثر فیصلوں کو انتقام کا نام دے کر تنقید اور مزاحمت کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ تین چار بار حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان کشیدگی اور تلخی بھی مشاہدے میں آئی جبکہ قومی میڈیا کیساتھ بھی دوسری حکومتوں کے مقابلے میں تعلقات خراب اور کشیدہ رہے۔ ٹیم میں مسلسل تبدیلیاں کی جاتی رہی جبکہ مسلم لیگ ْ(ق) ،بی این پی اور ایم کیو ایم پر مشتمل اتحادیوں کے ساتھ بھی کئی بار اختلافات پیدا ہوئے۔
اس غیر یقینی صورتحال کے باعث عمران خان اور حکومت کی مقبولیت کافی متاثر ہوئی جس کا متعدد بار نہ صرف یہ کہ عمران خان نے خود اعتراف کیا بلکہ وہ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے سمیت اپنے بعض وزراء اور مشیروں کی سرزنش بھی کرتے دکھائی دئے۔ ان عوامل اور رکاوٹوں نے جہاں تبدیلی یا ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی وہاں اپوزیشن کی اہمیت مقبولیت اور سرگرمیوں میں اضافے کا راستہ بھی ہموار ہوا جس نے کئی بار پارلیمنٹ اور اس کے باہر حکومت کے لیے کئی مشکلات پیدا کیں اور اب عید کے بعد اپوزیشن کی ایک موثر تحریک کے لئے تیاریاں اور رابطے جاری ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر سکے گی یا نہیں تلخ حقیقت یہ ہیں کہ آئندہ چند ماہ قبل حکومت کے لیے اہم اور فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket