Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, May 19, 2024

صوبے کے نئے گورنر کی تعیناتی اور پس پردہ کہانی

صوبے کے نئے گورنر کی تعیناتی اور پس پردہ کہانی

عقیل یوسفزئی

ایک وقت میں خیبر پختون خوا کی گورنر شپ کو انتہائی اہمیت کا حامل عہدہ سمجھا جاتا تھا. اس کی وجہ یہ تھی کہ قبائلی علاقے گورنر ہاؤس کے زیر انتظام آتے تھے اور ان علاقوں کو بوجوہ سونے کی چڑیا کی حیثیت حاصل تھی. گورنر لا محدود اختیارات کا حامل ہوا کرتے تھے تاہم فاٹا مرجر کے تاریخی فیصلہ کے بعد گورنر کے پہلے والے اختیارات اور “مزے” نہیں رہے پھر بھی پختون خوا اور بلوچستان کی گورنر شپ بوجوہ بہت پرکشش رہی ہے.
جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اور مولانا فضل الرحمن کے قریبی ساتھی، رشتہ دار حاجی غلام علی نے گزشتہ روز پختون خوا کے 17 ویں گورنر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے. کارکنوں کی بڑی تعداد تقریب حلف برداری میں شریک ہوئی تاہم وزیر اعلیٰ محمود خان خلاف روایت تقریب میں شریک نہیں ہوئے جس سے کوئی اچھا پیغام نہیں گیا. اس سے قبل جب ایک دفعہ مسلم لیگ ن کے سردار مہتاب عباسی گورنر بنے تھے تو اس وقت کے تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے تقریب میں بڑی خندہ پیشانی سے شرکت کی تھی.
گورنر اور وزیر اعلیٰ سمیت سب عہدے عوام کی امانت ہوتے ہیں ایسے میں ذمہ داران کو وسیع قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذاتیات اور پارٹی وابستگی کو درمیان میں نہیں لانا چاہیے.
حاجی غلام علی نہ صرف ایک عوامی بندہ ہیں اور سب سے ان کے ذاتی تعلقات رہے ہیں بلکہ وہ سیاست میں روایتی رواداری اور غمی شادی کے حوالے سے بھی اچھی شہرت رکھتے ہیں. اگر وزیر اعلیٰ تقریب حلف برداری میں شرکت کرتے تو اس سے ایک اچھا پیغام جاتا بلکہ جاری کشیدگی میں کم از کم صوبے کی سطح پر کمی بھی واقع ہوجاتی کیونکہ اس صوبے کی سیاسی اور پارلیمانی روایات بہت شاندار رہی ہیں.
اس سے قبل جب شہباز شریف کی زیر قیادت یہ حکومت برس اقتدار آئی تو اتحادیوں میں طے یہ پایا تھا کہ صوبے کی گورنر شپ اے این پی کو دی جائے گی اور اس تجویز کے محرک آصف علی زرداری صاحب تھے جن کو وزیراعظم کی تائید بھی حاصل تھی. اس ضمن میں اے این پی نے رسمی رابطوں کے نتیجے میں مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین کا نام بھی دیا جن کو ایک موزوں امیدوار سمجھا جاتا تھا تاہم مولانا فضل الرحمن نے بوجوہ اس فیصلے کی مخالفت کی اور اپنی پارٹی اور خاندان کے لیے ایک اور اہم عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے.

اے این پی نے وفاقی کابینہ کی تشکیل کے دوران وزارت مواصلات مانگی تھی وہ وزارت بھی مولانا لے اڑے تھے جس کے بعد پارٹی نے کوئی دوسری وزارت لینے سے معذرت کر لی حالانکہ صوبے میں اگر کسی ایک پارٹی نے تحریک انصاف اور اس کی حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے تو وہ اے این پی ہی رہی ہے. اس کے علاوہ سینئر سیاستدان آفتاب خان شیرپاؤ بھی اہم اتحادی ہونے کے علاوہ اپنے تجربے کی بنیاد پر گورنر کے عہدے کے لیے موزوں ترین امیدوار تھے.
بہرحال اب جبکہ یہ معاملہ طے پاچکا ہے اس لیے لازمی ہے کہ نئے گورنر کے ساتھ تعاون کیا جائے اور وہ بھی چند اہم معاملات پر بھر پور توجہ دیں. مثال کے طور صوبے کی یونیورسٹیوں کے مالی اور انتظامی امور کو اساتذہ اور دوسرے ملازمین کی مشاورت سے نمٹانا بہت ضروری ہے وہ اس معاملے پر فوری طور پر توجہ دیں. پاک افغان تجارت کو درپیش چیلنجز اور مسائل کے حل کیلئے بھی گورنر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں وہ مختلف چیمبرز کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اس لیے ان سے بہت فائدہ اٹھا یا جاسکتا ہے. گورنر اپیکس کمیٹی کے سربراہ بھی ہوتے ہیں جو کہ اہم ترین فورم رہا ہے. سیکورٹی کے درپیش مسائل اور قبائلی علاقوں کے معاملات کے حل کے لیے وہ اس کمیٹی کو فعال بنانے پر توجہ دیں کیونکہ اس میں اہم حکومتی بیوروکریٹس شامل ہیں اور وزیر اعلیٰ اور کور کمانڈر بھی اس کےممبرز ہیں.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket