Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, April 29, 2024

افغانستان کے حالات میں بہتری مگر چیلنجز موجود

 جنگ زدہ افغانستان کے سیاسی، انتظامی اور اقتصادی حالات بتدریج بہتر ہونے لگے ہیں جبکہ عالمی برادری کا رویہ بھی اس لیے مثبت سمت میں تبدیل ہو رہا ہے کہ ان کے پاس 20 سالہ ناکام تجربات اور اربوں ڈالرز کے نقصان کے تناظر میں اب متبادل بھی دستیاب نہیں ہیں۔

 طالبان حکومت کے مطابق تنخواہوں کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو چکا ہے داعش سمیت بعض دیگر گروپس کو لگام دیا گیا ہے جبکہ طالبات سمیت متعدد دوسروں کے لئے تعلیمی ادارے آہستہ آہستہ کھولے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق تمام پڑوسیوں کے ساتھ وہ پرامن طریقے سے برابری کی بنیاد پر تعلقات کا قیام چاہتے ہیں تاہم کسی کے ڈکٹیشن کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

 حکومت نے گزشتہ ہفتے اشرف غنی سمیت ان تمام سابقہ حکمرانوں اور اہم لوگوں کو واپس آنے اور تحفظ دینے کی پیشکش بھی کی ہے جو کہ 15 اگست کے بعد طالبان ٹیک اور کے بعد باہر منتقل ہوگئے تھے تاہم فی الحال تو حالت یہ ہیں کہ مزید لوگ بوجوہ باہر خصوصاً پاکستان اور ایران منتقل ہو رہے ہیں کیونکہ ان کو خوف ، عدم تحفظ اور مالی مشکلات کا سامنا ہے۔

pak afghan border fencing

پاکستان کے ساتھ دو اہم ایشوز پر معاملات آگے نہیں بڑھ رہے ہیں تاہم فریقین کو یقین ہے کہ یہ مسائل بھی جلدحل  ہو جائیں گے۔ ایک مسئلہ ٹی ٹی پی کے اُن جنگجوؤں کا ہے جو کہ وہاں قیام پذیر ہیں اور حملے کر اتے رہتے ہیں۔  دوسرا مسئلہ عارضی نوعیت کا ہے اور وہ سرحدی باڑ سے متعلق ہے جس کی حدود بندی کے بعض مسائل پر کبھی کبھار تلخی سامنے آ جاتی ہے اور بعض مقامات پر اس کو اکھاڑنے کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔ پاکستان کے عسکری حکام کے مطابق اس ضمن میں عملاً کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے اور باڑ کا 95 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے جس سے کراس بارڈر ٹیرزم کے خدشات میں غیر معمولی کمی واقع ہوگی۔

پاکستان اور افغانستان کی دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے بھی اقدامات ہورہے ہیں اور سپلائی پہلے کے مقابلے میں کم اور سست ہی سہی مگر دوبارہ بحال ہونے لگی ہے۔ طو رخم، چمن اور غلام خان کے راستے تجارت کا آغاز ہوچکا ہے۔  بڑا مگر عارضی مسئلہ اب بھی عالمی پابندیوں کا ہے جو کہ اگر برقرار رہتی ہیں تو اس سے علاقائی اور عالمی امن کو خطرہ لاحق ہوگا اور اس خدشے کا پاکستان اور افغانستان بار بار اظہار بھی کر رہا ہے۔

 ترجمان افغان حکومت ذبیح اللہ مجاہد نے اس ضمن میں رابطے پر بتایا کہ ہم نے امریکہ اور پڑوسیوں سمیت سب کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ماضی کی طرح اب افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور اس مقصد کے لیے ہم پرعزم ہیں۔ تاہم جن قو توں نے ہم پر بدامنی اور جنگیں مسلط کیں اُن کو تلافی اور چیلنجز کے طور پر ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ ان کے مطابق 20 برسوں کے قبضے کے دوران امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں صرف جنگ لڑی اس کی تعمیر نو کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس لیےموجودہ حالات اور اس کے نتائج کے یہ سب ذمہ دار ہیں، ہم اپنے طور پر بہتری لا رہے ہیں۔

سویڈن میں مقیم نامور پاکستانی تجزیہ کار ابو سید نے رابطے پر کہا کہ افغان طالبان کی اب تک کی پالیسیاں اور بیانیہ دنیا کو یہ بتانے پر مُصر ہے کہ افغان سرزمین مستقبل میں عالمی امن کے لیے خطرہ نہ بنے مگر اس کا انحصار عالمی برادری کا طالبان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر ہے۔

ان کے مطابق اگر طالبان حکومت پر سیاسی اور اقتصادی پابندیاں برقرار رہتی ہے تو اس سے شدت پسند عناصر کو تقویت ملے گی کیونکہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔  دوسری طرف درپیش اقتصادی سیاسی پابندیوں کے باعث شاید طالبان دیر تک امن قائم رکھنے میں بھی کامیاب نہ ہو کیونکہ اس کا داعش خراسان فائدہ اٹھائے گی جو کہ طالبان کی دشمنی کے علاوہ علاقائی اور عالمی امن کے لیے نہ صرف خطرناک عزائم رکھتی ہیں بلکہ وہ اس بات پر بھی معترض ہیں کہ طالبان ان کے بقول ایک ناقص محدود اور برائے نام شدت پسند گروہ ہے۔  امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے بھی یہ رپورٹ کر چکے ہیں کہ داعش خراسان مستقبل میں امریکہ اور مغرب پر بڑے حملوں کی صلاحیت رکھتی ہے۔

 صحافی عمر وزیر کے مطابق عدم استحکام سے نہ صرف پڑوسی بلکہ عالمی طاقتیں بھی متاثر ہوں گی کیونکہ افغان طالبان اور بعض دیگر امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو موجودہ حالات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی کبھار دھمکیوں پر بھی اتر آتے ہیں۔  اُن کے مطابق ٹی ٹی پی اور دیگر نے سال 2021 کے دوران صرف شمالی وزیرستان میں 148 حملے کئے جو کہ اس جانب اشارہ ہیں کہ حالات پر سے خراب ہوسکتے ہیں اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات، مخالف کمانڈرز اور بعض افغان سخت گیر کمانڈرز، جنگجوؤ متبادل کے طور پر داعش وغیرہ کو بھی جوائن کر سکتے ہیں جن کا ایجنڈا علاقائی نہیں عالمی ہے۔

 ممتاز تجزیہ کار فخر کاکا خیل کے مطابق صورتحال کافی خطرناک اور پیچیدہ ہے اور اگر افغان حکومت انتظامی اور مالی مسائل سے نہیں نکلی تو اس سے داعش اور القاعدہ کے علاوہ بعض سینٹرل ایشین گروپس بھرپور فائدہ اٹھائیں گے کیونکہ امریکہ کی اپنی ایک رپورٹ کے مطابق القاعدہ پھر سے افغانستان اور اس خطے میں منظم ہو رہی ہے جبکہ عالمی پراکسیز بھی سرگرم عمل ہے۔  اُن کے مطابق ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کا قیام اور دوطرفہ اعتماد سازی سمیت افغان عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے لازمی ہے کہ عالمی اور علاقائی قوتیں نئے منظر نامے کے مطابق نئی صف بندی کریں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket