Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, April 29, 2024

دہشت گرد کارروائیوں میں کمی کے اسباب، عوامل

عقیل یوسفزئی
یہ بات کافی حد تک خلاف توقع لگ رہی ہے کہ 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دو ڈھائی برسوں سے چلی آنیوالی بدترین دہشت گردی میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے اور اس پر عام لوگوں کے علاوہ دہشت گردی پر کام کرنے والے ماہرین اور تجزیہ کار بھی حیرت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ الیکشن کے انعقاد سے ایک آدھ دن قبل بلوچستان کے 3 اضلاع میں تین بڑے حملے کئے گئے جن کے دوران دو پارٹیوں اور امیدواروں کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً 50 لوگ شہید اور شدید زخمی ہوگئے۔ اس سے چند روز قبل بلوچستان کے علاقے مچھ میں بڑے پیمانے کا ایک حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 6 سیکورٹی اہلکار اور 2 شہری شہید ہوئے۔ فورسز کی جوابی کارروائیوں میں تقریباً 30 بلوچ شدت پسند ہلاک کردیے گئے۔ اسی طرح انہی دنوں خیبرپختونخوا کے علاقے ڈی آئی خان میں پولیس پر بھی شدید نوعیت کا حملہ کیا گیا جس کے باعث متعدد پولیس اہلکار شہید ہوئے تاہم اس تمام عرصے کے دوران دونوں شورس زدہ صوبوں میں فورسز کی جانب سے انٹلیجنس بیسڈ آپریشن جاری رہے اور جنوری ، فروری کے مہینوں میں صرف وزیر ستان ، ٹانک ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں فورسز نے تقریباً 26 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیے۔
دہشتگری پر کام کرنے والے ماہرین کے مطابق ماضی قریب کے لاتعداد حملوں کے برعکس سال 2024 کے ابتدائی دو مہینوں کے دوران حملوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی واقع ہونے کے متعدد اسباب ہوسکتےہیں تاہم سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاسکتی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان انتخابات کے بعد قایم ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مجوزہ پالیسی یا طرزِ عمل کا مشاہدہ اور انتظار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی۔ ان کے بقول خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی ایک بار پھر صوبائی حکومت کے قیام کے باعث ان کو ماضی کی طرح بعض رعایتیں مل سکتی ہیں اور حملہ آور گروپ اس مجوزہ حکومت کے قیام کے بعد کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اس وقفے سے فایدہ اٹھانے کی پالیسی کے تحت اپنی تنظیمی اور جنگی حکمت عملی کی از سر نو ترتیب کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ جبکہ بعض کے مطابق حملوں میں کمی سیکورٹی فورسز کی مسلسل کارروائیوں کے باعث ممکن ہوئی ہے۔
باخبر نوجوان صحافی عرفان خان کے مطابق حملوں میں کمی واقع ہونے کے متعدد اسباب ہیں۔ ان کے بقول کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو تنظیمی طور پر شدید نوعیت کے اختلافات کا سامنا ہے اور سب سے بڑے گروپ کے سربراہ کی قیادت اور پالیسیوں پر سخت اعتراضات کیے جارہے ہیں۔ ان کے بقول اختلافات کے علاوہ فورسز کی مسلسل کارروائیوں اور مربوط طریقہ کار نے بھی حملہ آور گروپوں کی طاقت اور صلاحیت کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور یہ کارروائیاں کسی وقفے کے بغیر جاری ہیں۔ ان کے مطابق اس پیشرفت یا صورتحال کے باوجود یہ یقین کے ساتھ یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ مستقبل میں بھی یہ صورت حال جاری رہے گی کیونکہ بعض حلقوں کے مطابق تحریک طالبان پاکستان اور بعض دیگر گروپ انتخابات کے بعد ” ویٹ اینڈ سی ” کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ان کو یہ امکان بھی نظر آرہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی جو حکومت قائم ہونے جارہی ہے اس کے دوران انہیں ماضی کی طرح بعض رعایتیں مل جائیں حالانکہ اب حالات میں پالیسی کے تناظر میں بہت تبدیلی واقع ہوئی ہے اور موجودہ ملٹری لیڈرشپ دہشت گردی کے معاملے پر زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket